امریکا نے غزہ کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی کونسل کو بیان دینے سے روک دیا
نیو یارک: سفارتکاروں اور واقف کار ذرائع کے مطابق امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اسرائیل اور فلسطین کے مابین کشیدگی کے بارے میں عوامی بیان سے روک دیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکا کا خیال ہے کہ تشدد کے خاتمے کے لیے پس پردہ کی جانے والی کوششوں کے لیے عوامی نوعیت کا بیان نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ: حماس کے ٹھکانوں پر اسرائیلی حملے، 9 بچوں سمیت 25 جاں بحق
ذرائع نے بتایا کہ واشنگٹن 'جنگ بندی کے حصول کے لیے تمام فریقین کے ساتھ بیک ڈور سفارت کاری میں مصروف ہے'۔
انہوں نے بتایا کہ امریکا کو اس بات پر تشویش ہے کہ اس وقت کونسل کا بیان معاملات کو سنگین بنا سکتا ہے۔
سلامتی کونسل نے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے مسجد الاقصیٰ اور اس کے اطراف کے علاقوں می حملوں پر نجی گفتگو کی۔
گزشتہ ہفتے سے جاری اسرائیلی پُرتشدد کارروائیوں کے بعد 15 رکنی سلامتی کونسل نے ایک ڈرافٹ بیان پر بات چیت کا آغاز کیا تھا جس میں اسرائیلی حملوں اور فلسطینی خاندانوں کی بے دخلی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جائے گا۔
جس میں اسرائیل سے یہودی آباد کاری کی سرگرمیوں کو معطل کرنے، فلسطینیوں کے گھروں تباہ کرنے سے روکنے جبکہ ان کی بے دخلی کو روکنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: عالمی برادری، فلسطین کی موجودہ صورت حال پر اسرائیل کا احتساب کرے، سعودی عرب
لیکن سفارت کاروں نے کہا کہ امریکا نے کونسل کے ہم منصوبوں سے کہا کہ اس وقت انہیں بیان جاری نہیں کرنا چاہیے۔
اقوام متحدہ میں امریکی مشن نے کہا کہ امریکا کوشش کر رہا ہے کہ سلامتی کونسل کی جانب سے اٹھائے جانے والے کسی بھی عمل سے خطے میں کشیدگی میں کمی کا باعث بنے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں کو بتایا کہ واشنگٹن کشیدگی میں کمی کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کا منتظر ہے چاہے یہ اقدامات اسرائیل، فلسطینی اتھارٹی یا سلامتی کونسل کی طرف سے سامنے آئیں۔
منگل کو اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجرک نے بتایا کہ اقوام متحدہ تمام متعلقہ فریقین کے ساتھ مل کر کشیدہ صورتحال کو فوری طور پر کم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے 'بچوں سمیت بڑی تعداد میں ہلاکتوں' پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: تکینکی خامیوں کے باعث فلسطین سے متعلق پوسٹ حذف ہوئیں، ٹوئٹر و انسٹا گرام
منگل کے روز وائٹ ہاؤس نے کہا کہ اسرائیل کا یہ جائز حق ہے کہ وہ حماس کے راکٹ حملوں سے اپنا دفاع کرے لیکن فلسطینیوں پر اسرائیلی حملوں پر صرف اتنا کہا کہ تل ابیب کو 'بقائے باہمی رہنا چاہے'۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے بتایا کہ صدر جو بائیڈن کو اپنی قومی سلامتی کی ٹیم کی جانب سے تازہ معلومات موصول ہوئی ہیں اور ان کی ساری توجہ کشیدگی میں کمی پر مرکوز ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا نے حماس اور دوسرے گروہوں کے راکٹ حملوں کی مذمت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جوبائیڈن کی 'اسرائیل کی سلامتی، اس کے اپنے اور اپنے عوام کے دفاع کے جائز حق کے لیے حمایت بنیادی ہے اور اس میں کمی نہیں ہوگی'۔