فلسطینیوں پر اسرائیل کی پُرتشدد کارروائیوں کے خلاف کرکٹرز کا رد عمل بھی سامنے آگیا
فلسطین میں اسرائیل کے حالیہ حملوں اور مظالم پر کرکٹرز نے بھی فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھاتے ہوئے حالیہ پرتشدد کارروائیوں کی مذمت کی ہے اور فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ 'فلسطین کے لوگوں کے لیے دعا گو ہوں، انسانیت کے لیے کھڑے ہونے کے لیے ہمیں صرف انسان بننا ہے'۔
کرکٹر احمد شہزاد نے ٹوئٹ کی کہ 'فلسطین میں جاری حملوں پر بہت دکھی ہوں، ان پُر تشدد کارروائیوں کے خلاف فوری اقدامات کیے جانے چاہئیں'۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے لیے دعا گو ہوں، اللہ ان کی حفاظت کرے۔
وہاب ریاض نے ٹوئٹ کی کہ تمام فلسطینی بھائیوں اور بہنوں، خصوصی طور پر بچوں کے لیے دعا گو ہوں۔
انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں مزید کہا کہ 'جو کچھ وہاں ہورہا ہے انتہائی دل شکن ہے، دعا ہے کہ اللہ اس مشکل وقت میں ان کی مدد کرے'۔
کرکٹر محمد عامر نے لکھا کہ 'فلسطینیوں کی زندگی معنی رکھتی ہے، کم از کم ہر اسلامی ملک کو فلسطین کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے'۔
فخر زمان نے لکھا کہ اسرائیلی فورسز، مسجد الاقصیٰ میں نہتے نمازیوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، وہ زمینوں پر غیرقانونی قبضہ کرکے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کررہے ہیں اور عالمی امن کے امکانات کو مجروح کرنے کے لیے تمام غیرقانونی اقدامات اٹھا رہے ہیں۔
کرکٹر محمد حفیظ نے وزیراعظم عمران خان کی ٹوئٹ پر جواب دیتے ہوئے لکھا کہ 'میں محمد حفیظ ہوں، ایک مسلمان محب وطن پاکستانی اور ہم غزہ کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں'۔
فلسطین پر اسرائیلی حملے
خیال رہے کہ رمضان المبارک کے آغاز سے ہی مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں اسرائیلیوں کی جانب سے فلسطینیوں پر حملوں اور دیگر پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جبکہ اس دوران دنیا کے 3 بڑے مذاہب کے لیے انتہائی مقدس شہر میں کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس پر پاکستان نے شدید مذمت بھی کی ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس میں جمعہ (7 مئی) سے جاری پرتشدد کارروائیاں سال 2017 کے بعد بدترین ہیں جس میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے علاقے سے متعدد فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کرنے کی طویل عرصے سے جاری کوششوں نے مزید کشیدگی پیدا کی۔
یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ایک طویل عرصے سے جاری قانونی کیس میں متعدد فلسطینی خاندان کو بے دخل کیا گیا ہے، اس کیس میں فلسطینیوں کی جانب سے دائر اپیل پر پیر (10 مئی) کو سماعت ہونی تھی جسے وزارت انصاف نے کشیدگی کے باعث مؤخر کردیا تھا۔
اسرائیلی فورسز کی جانب سے فلسطینیوں پر حالیہ حملے 7 مئی کی شب سے جاری ہیں جب فلسطینی شہری مسجد الاقصیٰ میں رمضان المبارک کے آخری جمعے کی عبادات میں مصروف تھے اور اسرائیلی فورسز کے حملے میں 205 فلسطینی زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے اگلے روز 8 مئی کو مسجدالاقصیٰ میں دوبارہ عبادت کی گئی لیکن فلسطینی ہلالِ احمر کے مطابق بیت المقدس کے مشرقی علاقے میں اسرائیلی فورسز نے پرتشدد کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 121 فلسطینی زخمی ہوئے، ان میں سے اکثر پر ربڑ کی گولیاں اور گرنیڈز برسائے گئے تھے جبکہ اسرائیلی فورسز کے مطابق ان کے 17 اہلکار زخمی ہوئے۔
بعدازاں 9 مئی کو بھی بیت المقدس میں مسجد الاقصٰی کے قریب ایک مرتبہ پھر اسرائیلی فورسز کی پُر تشدد کارروائیوں کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی زخمی ہوئے۔
10 مئی کی صبح اسرائیلی فورسز نے ایک مرتبہ پھر مسجد الاقصیٰ کے قریب پرتشدد کاررائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 395 فلسطینی زخمی ہوئے تھے جن میں سے 200 سے زائد کو علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔
اسرائیلی فوج کے حملے کے نتیجے میں 300 فلسطینی شہریوں کے زخمی ہونے کے بعد حماس نے اسرائیل میں درجنوں راکٹس فائر کیے تھے جس میں ایک بیرج بھی شامل تھا جس نے بیت المقدس سے کہیں دور فضائی حملوں کے سائرن بند کردیے تھے۔
اسرائیل نے راکٹ حملوں کو جواز بنا کر جنگی طیاروں سے غزہ پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں حماس کے کمانڈر سمیت 25 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
بعد ازاں 11 مئی کی شب بھی اسرائیلی فضائیہ نے ایک مرتبہ پھر راکٹ حملوں کو جواز بنا کر غزہ میں بمباری کی جس کے نتیجے میں 13 بچوں سمیت جاں بحق افراد کی تعداد 43 تک پہنچ گئی، یہ راکٹ حملے بھی حماس کی جانب سے کیے گئے تھے جس میں 5 اسرائیلیوں کے ہلاک اور متعدد کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔
غزہ کی وزارت صحت نے 12 مئی کو صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فضائی کارروائیوں میں جاں بحق افراد کی تعداد 48 ہوگئی ہے جن میں 14 بچے شامل ہیں اور زخمیوں کی تعداد 300 سے زائد ہوگئی ہے۔
دوسری جانب 6 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے جبکہ غزہ سے تقریباً1500 راکٹ فائر کیے گئے اور اسرائیل میں مختلف مقامات نشانہ بنائے گئے۔
اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے مطابق 7 سے 10 مئی تک مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی فورسز کی پُرتشدد کارروائیوں میں ایک ہزار فلسطینی زخمی ہوچکے تھے۔
اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر پرتشدد کارروائیوں کے بعد عالمی برداری کی جانب سے ان حملوں کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔
مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ حساس تصور کیے جانے والی مسجد الاقصیٰ اس وقت سے تنازع کی زد میں ہے جب 1967 میں اسرائیل نے بیت المقدس کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور اسے بعد میں اسرائیل کا حصہ بنا لیا تھا، اسرائیلی پورے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت اور یہودیوں کے عقائد کا مرکز قرار دیتے ہیں لیکن فلسطینی اسے اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔