فلسطینیوں پر اسرائیلی حملوں سے متعلق ٹوئٹ، ملالہ کو درست الفاظ استعمال کرنے کا مشورہ
نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کو فلسطینیوں پر حالیہ بمباری اور مظالم کی مذمت کرنے پر درست الفاظ کا انتخاب نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں بہادر بننے کی تجویز دی جا رہی ہے۔
ملالہ یوسف زئی نے 10 مئی کو ٹوئٹ میں اسرائیلی حملوں میں فلسطینی بچوں کے زخمی اور گرفتار ہونے سے متعلق یونیسیف کی رپورٹ بھی شیئر کی تھی۔
اگرچہ ملالہ یوسف زئی نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی تھی، تاہم انہوں نے فلسطینی مسلمانوں کے بجائے صرف وہاں بچوں کے قتل اور اسرائیلی جارحیت کو دہشت گردی لکھنے کے بجائے اسے تنازع لکھا تھا، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں حساس معاملے پر درست الفاظ استعمال کرنے کی تجویز دی گئی۔
ملالہ یوسف زئی نے لکھا تھا کہ یروشلم میں تشدد خصوصی طور پر بچوں کے خلاف، ناقابل برداشت ہے۔
مزید پڑھیں: مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں، اسرائیلی پولیس کے درمیان جھڑپ میں سیکڑوں افراد زخمی
انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا کہ طویل عرصے سے جاری اس تنازع نے کئی بچوں کی زندگیاں اور ان کے مستقبل چھین لیے ہیں۔
ملالہ یوسف زئی نے اپنی ٹوئٹ میں مطالبہ کیا کہ عالمی رہنماؤں کو فوری طورپر اقدامات کرنے چاہئیں، بچوں اور شہری غیرمحفوظ ہوں تو امن ممکن نہیں ہے۔
تاہم ان کی ٹوئٹ کے بعد کئی لوگوں نے کمنٹس کرتے ہوئے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں یاد دلایا کہ وہ ایک بااثر عالمی شخصیت ہیں، اس لیے انہیں حساس معاملے پر مغربی میڈیا اور دنیا کی جانب سے استعمال کیے جانے والے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔
ملالہ کی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے وفاقی وزیر علی حیدر زیدی نے انہی یاد دلایا کہ فلسطین کے نہتے شہریوں پر اسرائیل کی ریاستی سرپرستی میں کئی دہائیوں سے دہشت گردی جاری ہے۔
انہوں نے ملالہ یوسف زئی کو مینشن کیے بغیر لکھا کہ ہمیں مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کو سمجھنا چاہیے، فلسطین میں کئی دہائیوں سے یک طرفہ نہتے شہریوں کو نسل کشی ہو رہی ہے، ہمیں حقائق کو سمجھنا اور سیدھا کرنا چاہیے۔
آرٹسٹ فرقان شائق نے بھی ملالہ یوسف زئی کی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے نوبیل انعام یافتہ کی جانب سے لکھے گئے الفاظ پر اعتراض کیا اور ساتھ ہی انہوں نے درست الفاظ بھی لکھ ڈالے اور بتایا کہ ہمیں یروشلم میں تشدد کو اسرائیلی دہشت گردی لکھنا چاہیے اور بچوں پر تشدد کے بجائے نہتے مسلمانوں لکھنا چاہیے۔
بعض افراد نے ملالہ یوسف زئی کی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے ان کی اصلی ٹوئٹ کے الفاظ کو تبدیل کرکے انہیں سمجھایا کہ نوبیل انعام یافتہ کو حساس معاملے پر کیسے الفاظ استعمال کرنے چاہئیں؟
زیادہ تر افراد نے نوبیل انعام یافتہ کو مشورہ دیا کہ وہ تشدد کی جگہ دہشت گردی، بچوں کی جگہ مسلمان اور تنازع کی جگہ ظلم اور جبر جیسے الفاظ استعمال کرنے چاہئیں، کیوں کہ فلسطین میں اسرائیل یک طرفہ دہشت گردی اور مظالم جاری رکھے ہوئے ہے۔
بعض افراد نے انہیں مکمل طور پر معاملے سے بے خبر ہونے کا طعنہ بھی دیا اور انہیں یاد دلایا کہ فلسطین پر دہشت گردی تنازع نہیں بلکہ ظلم ہے اور انہیں ایسے معاملات کو سمجھنا چاہیے،
یہ بھی پڑھیں: مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں، اسرائیلی پولیس کے درمیان جھڑپ میں سیکڑوں افراد زخمی
خیال رہے کہ 7 مئی کو مشرقی یروشلم میں رات کے وقت ہونے والی جھڑپ میں اسرائیلی پولیس اور فلسطینی صحت ورکرز نے بتایا تھا کہ کم از کم 205 فلسطینی اور 17 اسرائیلی پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
اگلے روز بھی اسرائیلی فورسز نے بیت المقدس میں خصوصی عبادات کے لیے مسجد اقصیٰ کے قریب جمع ہونے والے سیکڑوں فلسطینیوں کو مسلسل دوسری رات بھی تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں 80 افراد زخمی ہوئے جن میں کم سن اور ایک سال کی عمر کا بچہ بھی شامل تھا جبکہ 14 افراد کو علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔
بعدازاں 9 مئی کو بھی بیت المقدس میں مسجد اقصٰی کے قریب ایک مرتبہ پھر اسرائیلی فورسز کی پُر تشدد کارروائیوں کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی زخمی ہوگئے۔
مسجد الاقصیٰ میں اسرائیلی فوج کے حملے کے نتیجے میں 300 فلسطینی شہریوں کے زخمی ہونے کے بعد حماس نے اسرائیل میں درجنوں راکٹس فائر کیے تھے جس میں ایک بیرج بھی شامل تھا جس نے یروشلم سے کہیں دور فضائی حملوں کے سائرن بند کردیے تھے۔
مزید پڑھیں: غزہ: اسرائیل کے حماس کے ٹھکانوں پر حملے، جاں بحق افراد کی تعداد 24 ہوگئی
جس کے بعد اسرائیل کی جانب سے بمباری کی گئی جس میں خان یونس، البوریج کیمپ اور الزیتون کے علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔
فلسطینی محکمہ صحت نے بتایا کہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں میں 9 بچے بھی شامل ہیں جبکہ 106 افراد زخمی ہوئے ان میں سے زیادہ تر بچے آپس میں رشتہ دار ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ اس نے غزہ سے راکٹس فائر ہونے کے جواب میں 8 مقامات پر حماس کو ہدف بنایا۔
یروشلم میں جمعہ (7 مئی) سے جاری پرتشدد کارروائیاں سال 2017 کے بعد بدترین ہیں جس میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے علاقے سے متعدد فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کرنے کی طویل عرصے سے جاری کوششوں نے مزید کشیدگی پیدا کی۔
اس کیس میں فلسطینیوں کی جانب سے دائر اپیل پر پیر کو سماعت ہونی تھی جسے وزارت انصاف نے کشیدگی کے سبب مؤخر کردیا تھا۔