تحقیقاتی کمیٹی نے اجمل وزیر کو بدعنوانی کے الزام سے کلیئر کردیا
پشاور: حقائق تلاش کرنے والی کمیٹی نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے سابق مشیر برائے اطلاعات و تعلقات عامہ اجمل وزیر کو سرکاری اشتہارات جاری کرنے کے لیے رشوت لینے کے الزام سے کلیئر کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اجمل وزیر کو گزشتہ برس جولائی میں ایک آڈیو لیک ہونے کے بعد ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا جس میں وہ مبینہ طور پر ایک اشہاری ادارے کے ساتھ رشوت کی بات کررہے تھے۔
حکومت نے سابق بیوروکریٹ صاحبزادہ سعید کی سربراہی میں معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: میرے خلاف منظم سازش ہوئی،راستہ روکنے کیلئے گھٹیا طریقہ اپنایا گیا، اجمل وزیر
اس حوالے صوبائی حکومت کے ترجمان کامران خان بنگش نے ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے بتایا کہ آڈیو کا فارنزک تجزیہ اس کی صداقت یا اس کے اجمل وزیر کے ساتھ نتیجہ خیز رابطے کو قائم نہیں کرسکا۔
انہوں نے بتایا کہ صاحبزادہ محمد سعید کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی کمیٹی میں سابق ایڈیشنل جنرل پولیس طارق جاوید اور ریٹائرڈ ڈسٹرک اینڈ سیشن جج محمد بشیر شامل تھے جنہوں نے اپنی رپورٹ صوبائی وزیر کو جمع کروائی۔
کامران بنگش کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے سرکاری افسران، اشتہاری ایجنسی کے عملے کے اراکین اور دیگر متعلقہ لوگوں سے پوچھ گچھ کی اور آڈیو کو فارنزک تجزیہ کے لیے ایف آئی اے کی لیبارٹری بھجوایا۔
انہوں نے بتایا کہ فارنزک رپورٹ میں آڈیو کے اصلی ہونے یا اجمل وزیر کے ساتھ ہونے کا کوئی لنک نہیں ملا اور وزیراعلیٰ محمود خان نے متعلقہ حکام کو کیس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔
مزید پڑھیں: ' آڈیو کلپ لیک ہونے پر' اجمل وزیر مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا کے عہدے سے فارغ
دوسری جانب ڈان سے بات کرتے ہوئے اجمل وزیر نے کہا کہ وزیر قانون اکبر ایوب اور ترجمان صوبائی حکومت کامران بنگش نے انہیں تحقیقات کے نتائج سے آگاہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے مبینہ طور پر ایک آڈیو لیک ہونے کے بعد اجمل وزیر سے مشیر اطلاعات کا قلمدان واپس لے لیا اور ان کی جگہ معاون خصوصی برائے بلدیات کامران بنگش کو مشیر اطلاعات کا اضافی چارج سونپ دیا تھا۔
اس حوالے سے چیف سیکریٹری کو ارسال کردہ مراسلے میں لکھا گیا تھا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا حال ہی میں منظر عام پر آنے والی اجمل وزیر کی آڈیو ٹیپ کی انکوائری کے لیے کارروائی شروع کرنے کے خواہاں ہیں۔
11 جولائی کو جاری مراسلے میں کہا گیا تھا کہ اس معاملے کو فوری اور انتہائی اہمیت کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔