• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

شمیم حنفی کے جانے پر اردو کا چمن اداس ہے

شائع May 8, 2021

اس کورونا دور میں ہمارا ایک نقصان یہ بھی ہوا ہے کہ ہمارے احساس کو بھی شدید ضرب پہنچی، بسا اوقات تو لگتا ہے کہ لفظوں کے تئیں ہماری قوتِ صرف ضرور ختم ہوگئی ہے۔ ہم کو اپنے اوپر اعتماد اور اختیار کا بڑا احساس تھا مگر اس وبائے جاں نے، 14، 15 مہینوں میں ہماری ساری اکڑ اور ہمارا تمام تر کس بل نکال کر رکھ دیا اور جتلا دیا کہ 'ہم واقعی مجبورِ محض ہیں'۔

مگر ہم ہی میں کچھ افراد اپنے 'مختار' ہونے کا زعم اب بھی رکھتے ہیں۔ انہیں اب بھی اپنے اختیار اور کچھ ہونے کا احساس ہے اور ان کا یہ پندار، ان کی خوش فہمی کا یہ محل کب دھم ہوجائے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ لگتا ہے کہ وہ جو کہا گیا ہے کہ 'ہم ڈھیل دیتے رہتے ہیں'، تو شاید ابھی کچھ لوگ اس ڈھیل کے دورانیے میں ہنس کھیل رہے ہیں۔ خدا ان کی اس خوش فہمی کا دورانیہ بڑھا دے۔ آمین

روز کسی نہ کسی کی رخصتی نے دل کو مار رکھا ہے، کبھی تو یہ بھی خیال گزرتا ہے کہ سینے میں دل کے نام سے جو لوتھڑا ہے وہ دھڑک بھی رہا ہے یا نہیں؟

کل تک اس دل نگری میں ہمہ وقت اِک جشن برپا رہتا تھا اب بس اِک ہوا چل رہی ہے، ہم سَن سَن ہی کی صدا سُن رہے ہیں۔ کبھی خیال گزرتا ہے کہ دیکھو، پیچھے بیٹھے میرے ندیم کی کیا حالت ہے؟ پلٹے تو ندیم غائب است۔ اب وہ خبر بن رہا ہے یا خبر بن گیا ہے۔

3 یا 4 دن قبل کی بات ہے کہ عزیزم ظہیر انصاری نے بتایا کہ شمیم صاحب (حنفی) کی حالت ٹھیک نہیں ہے، انہیں ہسپتال میں بیڈ نہیں مل رہا ہے، آکسیجن کا بھی مسئلہ ہے، ماتھا ٹھنکا کہ خدا خیر کرے۔ دوسرے دن پتا چلا کہ شمیم صاحب کو ہسپتال میں داخلہ مل گیا ہے۔

82 سالہ محترم شمیم حنفی ایک گمبھیر بیماری سے لڑ چکے ہیں، لوگ بتاتے ہیں ایک بار کورونا کو بھی شکست دینے میں وہ کامیاب ہوچکے ہیں مگر دوبارہ اس بلائے جاں نے جب انہیں اپنی گرفت میں لیا تو، پتا چلا کہ اس بیماری کے سامنے ہماری فتح وتح کوئی معنیٰ نہیں رکھتی وہ جسے ہم شکست سمجھ لیتے ہیں، وہ بھی رسّی کی ڈھیل ہی ہے۔

محمد شمیم حنفی سلطان پور کے ایک ممتاز وکیل محمد یٰسین صدیقی کے گھر 17 نومبر 1938ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ایڈووکیٹ یٰسین صدیقی نے 1932ء میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم مکمل کی تھی، یعنی شمیم حنفی کی رگوں میں جو خون دوڑ رہا تھا وہ علیگیرین رنگ لیے ہوئے تھا۔

محمد شمیم حنفی جو سلطان پور کے ایک ممتاز وکیل محمد یٰسین صدیقی کے گھر 17 نومبر کو 1938ء کو پیدا ہوئے تھے— تصویر بشکریہ ٹائمز آف انڈیا
محمد شمیم حنفی جو سلطان پور کے ایک ممتاز وکیل محمد یٰسین صدیقی کے گھر 17 نومبر کو 1938ء کو پیدا ہوئے تھے— تصویر بشکریہ ٹائمز آف انڈیا

ان کے والد نے شمیم حنفی کی تعلیم و تربیت کا جو خاکہ بنایا وہ آزادانہ خطوط کا حامل تھا مگر اس زمانے کی تہذیب کے مطابق ان پر ایک پابندی بھی عائد کی گئی تھی کہ وہ اذانِ مغرب کے بعد گھر میں دکھائی دیں۔ دیکھا جائے تو یہ عمل ان کی تربیت کا ایک جزوِ خاص تھا۔

شمیم حنفی کی ابتدائی تعلیم گھر ہی سے شروع ہوئی تھی اور ان کی اوّلین استاد ان کی والدہ محترمہ تھیں۔ اس کے بعد انہیں اس دور کی روایت کے مطابق ایک مقامی مدرسے میں داخل کردیا گیا جہاں ان کو ابتدائی درس، قرآن کریم کا ملا۔ ان کی پہلی کتاب علم القرآن تھی۔ انہوں نے اپنے مدرسے کے اوّلین استاد حافظ اولیا کو بھی آخر تک یاد رکھا۔

شمیم حنفی نے اپنی تعلیم کے ابتدائی دنوں کے تذکرے میں ٹاٹ پر بیٹھنا اور لکڑی کی تختی پر کچی روشنائی سے حروف بنانے کو بھی فراموش نہیں کیا۔ ان کے والد چونکہ شہر کے ایک ممتاز وکیل تھے تو گردو نواح کے دیہاتوں سے آنے والے مؤکلین، جن کے لیے ان کی کوٹھی ہی کے احاطے میں الگ سے کوٹھریاں بنی ہوئی تھیں جہاں وہ قیام کرتے تھے، اور وہیں وہ اپنا بھوجن بناتے تھے۔ رات کے بھوجن کے بعد ان مؤکلین کا رام چرتر کا پاٹھ بھی انہوں نے جیون بھر یاد رکھا۔ انہوں نے یہ بات بھی یاد دلائی کہ اس زمانے کے ہندو مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ کھانا تو ہرگز نہیں کھاتے تھے مگر ان کے دل کسی بھی تعصب سے پاک تھے، دونوں فرقے ایک دوسرے کے تہواروں میں دل سے شریک ہوتے تھے۔

دیکھا جائے تو یہ عوامل بھی ان کی گنگا جمنی تربیت کا حصہ تھے جو پھر ان کے مزاج کا خاصا بن گئے۔ شمیم حنفی جس طرح اردو والوں میں معروف و مشہور تھے تو اسی طرح ہندی حلقوں میں بھی ان کا مان سمان کیا جاتا تھا۔

اس گنگا جمنی مزاج کا ایک نتیجہ آخری دنوں میں یہ سامنے آیا کہ جب انہیں ہسپتال میں کہیں داخلہ نہیں مل رہا تھا تو اس موقعے پر ان کے دوست اور ہندی کے مشہور اسکالر اور سرکار دربار میں با رُسوخ اشوک واجپئی ان کے کام آئے اور انہوں نے شمیم حنفی کے علاج و معالجے کے لیے ہسپتال میں داخلے کی راہ ہموار کی۔

'موت کا ایک دن معین ہے' جو اپنے وقت پر آکر ہی رہتی ہے اور اس وقت کوئی حیٖلہ کوئی بہانہ کام نہیں کرتا۔ ان کا وقت جمعرات 6 مئی کو مقرر تھا اور وہ فرشتۂ اجل کے ساتھ ہولیے اور آن کی آن تمام دنیا میں 'شمیم حنفی بھی مرحوم ہوگئے' کی خبر عام ہوگئی۔ شمیم صاحب ابھی نہ جاتے، کچھ دن کچھ برس اور جیتے، مگر وہ اپنی زندگی کا تمام کام کرچکے تھے اور ایک احسن طریقے سے۔

وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو اپنے کو دہرا تے ہیں اور اپنی شہرت و ناموری کا ڈنکا بجتے دیکھ کر سینہ پُھلاتے ہیں۔ وہ دورِ حاضر کے اہلِ علم و قلم کو دیکھتے تو دل ہی دل میں کڑھتے تھے کہ ان میں اکثر اپنی ڈگڈگی ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ فنکار کا ایک وصف 'بے نیازی' جو شمیم صاحب کے ہاں خوب خوب تھا۔ شمیم صاحب کے نزدیک 'خود تشہیری' معیوب عمل تھا مگر کیا کیا جائے کہ یہ عارضہ تو کورونا سے بھی پہلے ہمارے ہاں آیا اور ایسا پھیلا کہ اس کی ویکسن بھی بننے سے رہی۔

شمیم صاحب ابھی نہ جاتے، کچھ دن کچھ برس اور جیتے، مگر وہ اپنی زندگی کا تمام کام کرچکے تھے اور ایک احسن طریقے سے—تصویر بشکریہ فہیم صدیقی/ وائٹ اسٹار
شمیم صاحب ابھی نہ جاتے، کچھ دن کچھ برس اور جیتے، مگر وہ اپنی زندگی کا تمام کام کرچکے تھے اور ایک احسن طریقے سے—تصویر بشکریہ فہیم صدیقی/ وائٹ اسٹار

شمیم حنفی ہمہ وقت غور و فکر کے آدمی تھے، وہ دنیا کے موہ جال میں آنے والوں میں سے نہیں تھے۔ شمیم صاحب کس درجے کے عالم اور کیسے صاحبِ نقد و نظر تھے! یہ کس سے چھپا ہوا تھا یا چھپا ہوا ہے۔ یہ پورا ماجرا 2، 4 برس کا قصہ نہیں بلکہ نصف صدی سے زائد کی روداد ہے۔ وہ اردو کے استاد تھے وہ لکھنا ہی نہیں بولنا بھی جانتے تھے، جس کی بہتر گواہی پاکستان کے ادبی فیسٹیول والے دیں گے کہ وہ کئی بار اور تواتر سے ان فیسٹیول میں جاتے رہے ہیں۔

وہ ہمارے اُن گنے چنے اہلِ علم میں سے تھے جو بولنے پر بھی اتنے ہی قادر ہوتے ہیں جتنا لکھنے پر اور ان کا بول گوکھرو نہیں بلکہ گلابی گلابی تھا جس کی خوشبو دل و جاں کو معطر کردیتی تھی، وہ اسمِ بامسمیٰ یعنی 'شمیم ہی شمیم' تھے۔

گور کھپور کے پروفیسر رگھوپتی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پارس تھے، اور پارس کا ایک اہم وصف یہ بھی ہوتا ہے کہ جو اِس سے مَس ہوتا ہے وہ بھی پارس بن جاتا ہے۔ شمیم حنفی ایک ایسے ہی پارس تھے۔ فراق گور کھپوری اپنے زمانے میں انگریزی ادب کے مثالی اسکالر تھے، ویسے پائے کے اسکالر اب اردو کو نصیب نہیں۔ فراق کے بارے میں یہ بات عام طور پر سنی گئی کہ وہ جب بولتے تھے تو لگتا تھا کہ رگھو پتی یا فراق نہیں بول رہا ہے بلکہ سننے والے کو محسوس ہوتا تھا کہ 'علم' براہِ راست ہم سے مخاطب ہے۔

فراق سے مستفید ہونے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے مگر استفادہ کرنا بھی اک خوبی ہے اور وہی خوبی کہ گنگا تو بہہ رہی ہے اب اس سے آپ اپنے تن کو پاک کرتے ہیں یا اپنے من کو اشنان کراتے ہیں۔ یہ آپ پر منحصر ہے۔

اسکولی تعلیم کے بعد شمیم حنفی اعلیٰ تعلیم کے لیے الہٰ آباد منتقل ہوگئے، جہاں شمیم حنفی کو اعجاز حسین اور احتشام حسین جیسے رہبر بھی میسر آئے تو اس طرح ان کے ہاں علم و ادب کا اعجاز بھی راسخ ہوا اور نقد و نظر کا احتشام بھی ان کے کردار میں ڈھلتا چلا گیا۔ ان اساتذہ کے ساتھ وہ فارسی کے استاد مولوی مغیث الدین کے درس کو بھی یاد کرتے رہے کہ اس استاد ہی کی وجہ سے وہ فارسی کے ڈراموں کا ترجمہ کرسکے۔

شمیم حنفی ہمہ وقت غور و فکر کے آدمی تھے، وہ دنیا کے موہ جال میں آنے والوں میں سے نہیں تھے
شمیم حنفی ہمہ وقت غور و فکر کے آدمی تھے، وہ دنیا کے موہ جال میں آنے والوں میں سے نہیں تھے

سلطان پور کے اس پوت کو شمیم حنفی بنانے میں اُن گروؤں کا بھی کردار رہا ہے جو انہیں تروینی کے شہر الہٰ آباد میں گنگا، جمنا کے کلچر میں رنگ چکے تھے مگر وہ جو کہتے ہیں کہ گھٹی میں جو پڑ جاتا ہے وہ تمام عمر اپنا کام کرتا ہے۔ ان کے گھر میں نیاز فتح پوری کا مجلہ 'نگار' اور 'جمالستان' جیسے دیگر جرائد آتے تھے اور ان کے ذہن میں ادب کا بیج انہیں رسائل سے پڑا۔ مشہور شاعر مجروح سلطان پوری نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’شمیم میاں! تمہارے والد ہی نے ہمارا تخلص مجروح تجویز کیا تھا'۔ واضح رہے کہ مجروح اوائل عمری میں اسرار تخلص کرتے تھے۔

اس بات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ان کے والد یٰسین صدیقی کو بھی کس درجہ شعر و ادب سے شغف رہا ہوگا۔ شمیم حنفی کا حافظہ بہت قوی تھا تو ان کے والدین کی تربیت کا یہ عنصر بھی قابلِ ذکر ہے کہ خود شمیم حنفی نے بتایا تھا کہ ’میرے والد نے اس دور کے ممتاز شعرا کی نظمیں مجھے یاد کرائیں۔ جس سے میرے حافظے کو خوب جِلا ملی'۔ جس سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ انہوں نے جو کچھ پڑھا وہ بھولے نہیں۔ اپنے والد ہی کے کہنے پر انہوں نے ٹیگور کو پڑھا۔

انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں راشٹریہ گیت کے شاعر گرودیو کے تعلق سے اس بات کا بھی ذکر کیا، جو یہاں نقل ہونی چاہیے کہ ٹیگور نے 1906ء میں ایک لیکچر میں کہا تھا کہ 'نیشنل ازم ایک بے ہودہ نظریہ ہے'۔ ظاہر ہے کہ آج کے تنگ نظر دور میں یہ کہنا تو کجا یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔

شمیم حنفی نے اپنے والد کی طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اعلیٰ سند ہی حاصل نہیں کی بلکہ اس مادرِ علمی میں انہوں نے پڑھایا بھی اور پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ (دہلی) منتقل ہوگئے۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آلِ احمد سے سرورِ علمی حاصل کیا اور علم و ادب کے شمیمِ جاں بن گئے۔

عام طور پر ہمارے گھروں میں بچوں کی تعلیم و تربیت کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا جاتا، بس ہوا جس رخ پر لے جائے اس طرف آدمی اُڑ جاتا ہے مگر شمیم حنفی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا کیونکہ ان کے والد کو خود علم سے شغف تھا۔ شمیم حنفی بتاتے تھے کہ ان کے والد کا جب انتقال ہوا تو ان کے سِرہانے 2 کتابیں تھیں جس میں سے ایک انگریزی کی اور دوسری کتاب جو تھی وہ شیخ علی ہجویری داتا گنج بخش کی 'کشف المحجوب' تھی۔

اس تذکرے سے ان کے والد کے ذہنی رجحان کا اتہ پتہ ملتا ہے مگر اسی کے ساتھ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ان کے والد نے اسکول کے 8ویں اور 9ویں کلاس کے زمانے میں جو کتابیں ان کو لاکر دیں تو ان میں سے ایک The Communist Manifesto: Unabridged بھی تھی اور اس کتاب کو پڑھنے کی تاکید بھی کی گئی، یعنی شمیم حنفی کے ہاں جو سیکولر مزاج تھا اس میں ان کے والد کی تربیت کا بڑا ہاتھ تھا۔

شمیم حنفی کو اپنی گنگا جمنی تہذیبی نفس کا بڑا احساس تھا۔ انہیں اس امر پر خوشی بھی تھی کہ اس احساس نے کسی غرور کا چولا نہیں بدلا۔ علم کا بنیادی نتیجہ یہی ہونا چاہیے کہ آدمی کے ہاں آدمی کے تئیں احترام و محبت پیدا ہو اور وہ ہر تعصب و تنگ نظری سے پرے اپنے تشخص کو دریافت کرلے۔ دورِ حاضر میں شمیم حنفی اس تشخص کے حامل ممتاز دانشور اور عالم تھے۔

شمیم حنفی نے گزشتہ سال 13ویں عالمی اردو کانفرنس سے آن لائن خطاب کیا

شمیم حنفی کے مزاج کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ ان کے ہاں علمی غرور تو کجا علم کا تفاخر بھی نہیں دیکھا گیا۔ ورنہ ہمارے مشاہدے میں ایسے اہلِ علم و ادب بھی ہیں کہ جن کے ہاں علم اپنے تفاخر و غرور کے ایسے ایسے مناظر دکھاتا تھا کہ وہ دوسروں کے حق ہی میں نہیں خود اپنے ہی غضبِ علمی کے سیل میں بہہ جاتے تھے۔

ہم جیسے ہلکے لوگ اس کے خواہش مند تو ہوتے ہیں کہ ہمارا شمار شرفا میں کیا جائے مگر یہ خواہش ہی رہ جاتی ہے کیونکہ ہم اکثر اس خواہش کو عملی شکل نہیں دے پاتے مگر جس کو اللہ دے، شرافتِ نفسی کی اس نعمت سے بھی شمیم صاحب کو قدرت نے متمول کر رکھا تھا۔ ایک واقعہ ہمارے عزیزِ مکرم شمس بدایونی نے بیان کیا ہے جو شمیم صاحب کی اس سرشت کا مثالی نمونہ بن گیا ہے:

'علی گڑھ کے ایک سیمینار میں انہیں (شمیم حنفی صاحب کو) کلیدی خطبہ دینا تھا۔ ان کے استاد پروفیسر اسلوب احمد انصاری نے خطبے سے پیشتر جو تقریر کی اس میں ان کی تنقید نگاری کو بقول شخصے چھیل کر رکھ دیا۔ لوگ سمجھ نہیں سکے کہ وہ کس بات پر ناراض تھے، مگر حنفی صاحب نے اپنے استاد کے اعتراضات کا کوئی جواب نہیں دیا اور نہ کسی بدمزگی کا اظہار کیا بلکہ کامل اعتماد کے ساتھ کلیدی خطبہ پیش کیا۔ ان کے اس اعتماد اور احترامِ استاد نے اسلوب صاحب کی تقریر کا سارا اثر زائل کردیا'۔

وہ جو کہا گیا ہے کہ بڑائی تک پہنچنا کمال نہیں، اپنے کردار سے بڑا ثابت کرنا کمال ہوتا ہے، اس واقعے میں اس کی مثال واضح ہے۔

شمیم حنفی کے ساتھ دوحہ، قطر کا ایک سفر ہم زندگی بھر نہیں بھول سکیں گے کہ یہی وہ سفر ہے جس میں شمیم حنفی سے ہمارا تعارف ہوا اور ایسے ہوا کہ جیسے شمیم صاحب تو ہمیں بہت پہلے سے جانتے تھے۔

قطر کے ساحلِ سمندر پر ان کے ساتھ ہمارے عزیزان، عزیز نبیل، ریاض منصوری، ندیم ماہر، احمد اشفاق، حامد اقبال اور منصور عثمانی وغیرہ اس طرح گھلے ملے سیر کرتے رہے کہ ہم سب جیسے برسوں سے شمیم حنفی کے حلقہ بگوشوں میں تھے۔ اس وقت کی ایک تصویر تو اب یادگار بن گئی ہے۔

شمیم حنفی کے ساتھ دوحہ، قطر کا ایک سفر ہم زندگی بھر نہیں بھول سکیں گے کہ یہی وہ سفر ہے جس میں شمیم حنفی سے ہمارا تعارف ہوا
شمیم حنفی کے ساتھ دوحہ، قطر کا ایک سفر ہم زندگی بھر نہیں بھول سکیں گے کہ یہی وہ سفر ہے جس میں شمیم حنفی سے ہمارا تعارف ہوا

کچھ لوگ انکسارِ علمی کے غرور میں بھی دیکھے جاتے ہیں اور یہ غرور تو ہر طرح سے ہلاکت خیز ہوتا ہے۔ شکر ربّی کہ شمیم صاحب اس عذابِ انکسار سے بھی بچے رہے۔

علم نافع کی ایک اصطلاح سب نے پڑھ اور سُن رکھی ہے مگر اس کی تعبیر ایک خاص تناظر میں کی جاتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہی علم، نافع ہوسکتا ہے جو آدمی کو محض عالم ہی نہ بنائے بلکہ انسانیت کا مجسم و متحرک کردار بنا دے۔ شمیم حنفی اس تشخص اور اس کردار کا ایک مثالی نمونہ تھے۔ اے کاش ہم ان کے اس کردار کو اپنے کردار میں منتقل کرکے 'علم نافع' کی حقیقی تعبیر اور شمیم صاحب کو سچا خراج پیش کرسکیں۔

شمیم حنفی کی رحلت کی خبروں میں ان کی کتابوں اور ان کے مخصوص ادبی رویوں کو سب نے بیان کیا ہوگا، ہم نے بھی اس مضمون میں ان کی ذہنی تربیت اور ایک سچے اور حقیقی عالم کے انسانی کردار پر روشنی ڈالنے کی سعیٔ ناتمام کی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ خدا اپنے بندوں سے اس طرح سلوک کرنے والے کے ساتھ رحم و کرم ہی کا معاملہ کرے گا۔

ندیم صدیقی

مضمون نگار ممبئی کے ممتاز اخبارات میں 30 برس صحافتی خدمات انجام دے چکے ہیں اور ایک شاعر کے طور پر بھی معروف ہیں۔ ان کے کالموں اور تذکروں کی ایک کتاب ’پُرسہ‘ شائع ہوچکی ہے جس کا پاکستان میں بھی ایک ایڈیشن طبع ہوا ہے۔ یہ کتاب شعرا، ادبا اور دیگر اہلِ علم و قلم کے خاکوں اور تعزیتی تحریروں پر مبنی ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024