این اے 249: مفتاح اسمٰعیل کی ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواست منظور
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے مسلم لیگ (ن) کی قومی اسمبلی کے حلقہ 249 میں دوبارہ ووٹوں کی گنتی کی درخواست منظور کر لی۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں چار رکنی کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار مفتاح اسمٰعیل کی این اے 249 میں دوبارہ ووٹوں کی گنتی کی درخواست پر سماعت کی۔
مفتاح اسمٰعیل کے وکیل سلمان اکرم راجا نے این اے 249 کے بغیر دستخط شدہ فارم 45 کی تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع کراتے ہوئے کہا کہ بڑی تعداد میں پریزائیڈنگ افسران کی جانب سے فارم 45 پر دستخط نہیں کیے گئے تھے، حلقے کے 167 پولنگ اسٹیشنز کے فارم 45 پر دستخط موجود نہیں تھے جبکہ ہمارے پولنگ ایجنٹس کو فارم 46 بھی جاری نہیں کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ فارم 46 کا فراہم نہ کرنا بہت سے سوالات پیدا کرتا ہے، جسٹس ناصر الملک کمیشن کی رپورٹ کے مطابق فارم 46 بھی فارم 45 کی طرح اہم ہے، پریذائڈنگ افسران دستخط شدہ فارم 45 اور 46 پولنگ ایجنٹس کو فراہم کرنے کے پابند ہیں لیکن ریٹرننگ افسر کی جانب سے فراہم کردہ فارم 45 پر بھی دستخط موجود نہیں ہیں۔
سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ این اے 249 میں دوبارہ پولنگ کے لیے علیحدہ درخواست دائر کریں گے، ضمنی انتخاب میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی ہمارا پہلا مطالبہ ہے، اگر مطمئن نہ ہوئے تو ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے آگے بھی مطالبہ کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: این اے-249 ضمنی انتخاب: مفتاح اسمٰعیل کی دوبارہ گنتی کی درخواست سماعت کیلئے منظور
انہوں نے کہا کہ 180 پولنگ اسٹیشنز میں پولنگ کے بعد جو کارروائی ہوئی وہ قانون کے مطابق نہیں تھی، صرف دوبارہ گنتی کرنا کافی نہیں الیکشن کمیشن کو مداخلت کرنا ہوگی، تصدیق شدہ فارم 45 اور 46 نہ ہونے سے پورا الیکشن مشکوک ہوگیا، حتمی نتائج سے پہلے الیکشن کمیشن دوبارہ گنتی کا حکم دے سکتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) نے الیکشن کمیشن سے این اے 249 میں دوبارہ پولنگ کی استدعا بھی کردی۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ دوبارہ انتخابات کے لیے باضابطہ درخواست بھی دائر کروں گا۔
پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پولنگ کے دوران مسلم لیگ (ن) نے کسی فورم پر کوئی شکایت نہیں کی، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ بے ضابطگیاں ہوئی ہیں، نشاندہی کرنی ہوتی ہے کہ کہاں اور کیا بے ضابطگی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریٹرننگ افسر کو بھی مفتاح اسمٰعیل نے عمومی درخواست دی تھی لیکن ریٹرننگ افسر دوبارہ گنتی کی درخواست منظور کرنے کا پابند نہیں جبکہ الیکشن کمیشن میں کیس پولنگ اسٹیشنز کا نہیں آر او کے حکم کے خلاف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں شکست تسلیم کرنے کا رواج ہی نہیں، مسلم لیگ (ن) نے فارم 45 پر اعتراض رات ڈھائی بجے ہارنے کے بعد کیا لگتا ہے مفتاح اسمٰعیل نے پہلے سے ہی درخواست تیار کر رکھی تھی، ریٹرننگ افسر کو درخواست میں کہا گیا کہ نتائج جس انداز میں آئے وہ مشکوک ہے، ریٹرننگ افسر کا کام تھا کہ نتیجہ جاری کرتا، کیا ریٹرننگ افسر الیکشن کمیشن سے حکم امتناع کا انتظار کر رہے تھے؟
الیکشن کمیشن کے پنجاب کے رکن الطاف قریشی نے استفسار کیا کہ کیا پیپلز پارٹی کے امیدوار ریٹرننگ افسر کے حکم سے مطمئن ہے؟
مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کا این اے 249 کا انتخابی مواد فوج کی تحویل میں دینے کا مطالبہ
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے ریٹرننگ افسر کا حکم چیلنج نہیں کیا ہوا، ٹھوس وجوہات نہ ہونے پر الیکشن کمیشن بھی دوبارہ گنتی کا حکم نہیں دے سکتا جبکہ ریٹرننگ افسر نے قرار دیا کہ مسلم لیگ (ن) کی درخواست غیر مناسب ہے۔
فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن نے این اے 249 میں دوبارہ ووٹوں کی گنتی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ فیصلہ آج ہے سنایا جائے گا۔
چند گھنٹوں بعد الیکشن کمیشن نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل کی ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواست منظور کر لی۔
الیکشن کمیشن نے حکم دیا کہ 6 مئی کو صبح 9 بجے ووٹوں کی دوبارہ گنتی ہوگی جس کے لیے تمام جماعتیں آر او آفس پہنچ جائیں۔
فیصلے کے بعد این اے 249 سے پیپلز پارٹی کے کایاب امیدوار قادر مندوخیل نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے رات ڈھائی بجے فیصلے کے بعد چیخنا چلانا شروع کیا، محمد زبیر کے دس اعتراضات ہیں وہ ایک جگہ نہیں ٹھہرتے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ نے کورونا کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرنے کا کہا تھا، 6 مئی کو صبح 9 بجے دوبارہ گنتی ہوگی، پیپلز پارٹی ہی جیتے گی اور ذلت ان کا مقدر بن چکی ہے۔
واضح رہے کہ جمعہ کو جاری ہونے والے عارضی نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر مندوخیل نے 16 ہزار 156 ووٹ حاصل کرنے کے بعد کراچی میں این اے 249 کے ضمنی انتخاب میں بہت کم مارجن سے کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل نے 15 ہزار 473 ووٹوں کے ساتھ دوسری پوزیشن حاصل کی تھی اور پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) نے انتخابی نتائج کو مسترد کردیا تھا۔