بھارت سے بیک چینل رابطے پر ماہرین نے خدشات کا اظہار کردیا
بھارت سے بیک چینل رابطے سے متعلق خدشات بڑھ رہے ہیں کیونکہ اس حوالے سے پاکستان کی طرف 'اسٹریٹجک وضاحت کی عدم موجودگی' دیکھی جارہی ہے۔
مذاکرات میں کن امور پر بات ہورہی ہے اس کی ناکافی تفصیلات، کی وجہ سے بھی خدشات کو ہوا مل رہی ہے، بھارت کے آگے قدم بڑھانے کے پیچھے اس کے ارادوں سے متعلق بھی خدشات پائے جاتے ہیں جبکہ اس عمل سے تنازع کشمیر کے حل میں مدد ملنے کے حوالے سے مایوسی دکھائی دیتی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہی خدشات اب اسلام آباد کے مصروف تھنک ٹینک سرکٹ نے بھی اٹھائے ہیں۔
اسلام آباد پولیس انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آئی) میں 'پس پردہ مذاکرات اور بھارت ۔ پاکستان تعلقات' کے عنوان سے منعقدہ ویبنار میں ماہرین نے بات کرتے ہوئے اس عمل میں مزید کودنے سے قبل بھارت کے ارادوں کا پتا لگانے پر زور دیا۔
ویبنار کے تین مقررین، سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ آصف یٰسین مالک، اقوام متحدہ میں سابق مستقل مندوب اور برطانیہ و امریکا میں سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی اور بھارت میں سابق سفیر اور جرمنی میں موجودہ سفیر عبدالباسط، کی پریزنٹیشنز بیک چینل کھولنے کے پیچھے بھارت کا ممکنہ مقصد، کشمیر سے متعلق بات چیت کی نوعیت اور دونوں ممالک کے انٹیلی جنس سربراہان کے درمیان گزشتہ دسمبر سے مبینہ طور پر جاری اس پس پردہ بات چیت کے نتیجے میں فرنٹ چینل کے استعمال کی نوعیت کے گرد گھومتی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے تمام متنازع مسائل پر خفیہ مذاکرات کی پیشکش کی، پاکستانی حکام
اس پس پردہ بات چیت کے نتیجے میں اب تک لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی بحالی، طویل وقفے کے بعد بھارت ۔ پاکستان کے مستقل انڈس کمیشن کی بات چیت، دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان پیغامات کا تبادلہ اور اسلام آباد سیکیورٹی ڈائیلاگ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا بھارت کو امن کا اشارہ دینا شامل ہے۔
مقررین نے کہا کہ اسلام آباد میں اُمید پسندی نئی دہلی کی خاموشی کے برعکس ہے، پاکستانی حکومت کا جوش و خروش اور کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات پر بات چیت کے لیے مودی حکومت کی سنجیدگی عوام میں سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔
آصف یٰسین ملک نے کہا کہ امن اور تعلقات معمول پر لانے کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے خیالات میں اختلاف ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ کشمیر پر سمجھوتے کی قیمت پر بھارت کے ساتھ امن نہیں ہوسکتا۔
آصف یٰسین نے مختلف حلقوں کی جانب سے بھارت کے ساتھ امن کے اقتصادی ثمرات کے حوالے سے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا کہ کیا بیک چینل عمل سے بھارت کی پاکستان کے خلاف ففتھ جنریشن وار، اس کا افغانستان میں منفی کردار اور ایف اے ٹی ایف جیسے عالمی اداروں میں اس کی طرف سے پاکستان کی مخالفت ختم ہوجائے گی؟
آصف یٰسین ملک کا کہنا تھا کہ 'امن کی منتخب جہتوں کو حاصل کرنے کے عمل کے بجائے، متناسب جامع امن کی ضرورت ہے'۔
مزید پڑھیں: پاک بھارت حکام کی دبئی میں مسئلہ کشمیر پر بات چیت
ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا کہ وہ مودی حکومت کی طرف سے تمام معاملات پر بات چیت کے لیے تیاری ظاہر کرنے پر پاکستان میں منائی جانے والی خوشی سے اتفاق نہیں کرتیں۔
انہوں نے کہا کہ 'یہ پتا چلنا اب بھی باقی ہے کہ جب یہ کہتے ہیں کہ بھارت تمام معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہے تو اس کا حقیقت میں کیا مطلب ہے، بھارت ہمیشہ سے تمام مسائل پر مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ کشمیر پر کس طرح بات کرنا چاہتا ہے'۔
ملیحہ لودھی نے مزید کہا کہ 'ہم سب عزت کے ساتھ امن کے خواہاں ہیں لیکن کشمیر کے بارے میں اپنی بنیادی حیثیت سے سمجھوتہ کرنے کی قیمت پر نہیں کیونکہ اس صورت میں تعلقات معمول پر لانا دیرپا نہیں ہوگا اور نہ ہی پاکستان کے عوام کو یہ منظور ہوگا'۔
انہوں نے دونوں فریقین سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے بیک چینل مذاکرات کاروں کو نامزد کریں اور ان کے نام سامنے لائیں کیونکہ اس سے سنجیدگی کا پتا چلے گا، بصورت دیگر یہ شاطرانہ لگیں گے۔
سفیر عبدالباسط نے کہا کہ بھارت کا پاکستان سے بات چیت کرنا ایک چال ہے اس لیے اس میں حصہ لینے والے پاکستانی مذاکرات کاروں کو چاہیے کہ وہ بہت احتیاط کے ساتھ ہر قدم آگے بڑھائیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر خارجہ کی متحدہ عرب امارات کی مدد سے 'خفیہ پاک بھارت' مذاکرات کی تردید
انہوں نے کہا کہ 'اگر ہمیں اس صورتحال میں لے جایا جاتا ہے جہاں ہم باضابطہ مذاکرات کے ایک اور مرحلے کی حامی بھر لیں تو اس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس مرحلے پر یہ طے کرنے پر زور ہونا چاہیے کہ جموں و کشمیر کے حوالے سے روڈمیپ کیا ہوگا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'بھارت کو چاہیے کہ وہ کشمیر سے متعلق اقدامات اٹھا کر تنازع کے حل کے حوالے سے اپنی سنجیدگی ظاہر کرے'۔
عبدالباسط نے کہا کہ حریت رہنماؤں کی رہائی اور انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت اشارہ ہوگا کہ بھارت تنازع کے حل کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر قابل عمل امن کا حصول ممکن نہیں۔
سفیر نے اس عمل میں کشمیریوں کو شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کی شرکت کے بغیر کوئی عمل کامیاب نہیں ہوسکتا۔