مسلم لیگ (ن) کا این اے 249 کا انتخابی مواد فوج کی تحویل میں دینے کا مطالبہ
اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان کراچی کی قومی اسمبلی کی نشست (این اے 249) پر حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخاب کے نتائج پر لفظی جنگ جاری ہے، مسلم لیگ (ن) نے چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) کو درخواست جمع کرائی ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ بیلٹ پیپرز سمیت انتخابی مواد آرمی یا رینجرز کی نگرانی میں رکھیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار مفتاح اسمٰعیل نے درخواست جمع کرائی جبکہ پیپلز پارٹی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے دوبارہ گنتی کے لیے سرکاری نتائج کا اعلان روکنے کے فیصلے کا 'خیر مقدم' کیا اور مسلم لیگ (ن) سے پارٹی پر 'اسٹیبلشمنٹ' کی حمایت سے سیٹ جیتنے کا الزام عائد نہ کرنے کا کہا۔
تاہم دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنے بیانات میں ایک دوسرے پر 'اسٹیبلشمنٹ' کی خفیہ حمایت کے الزامات جاری رکھے۔
جمعہ کو جاری ہونے والے عارضی نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر مندوخیل نے 16 ہزار 156 ووٹ حاصل کرنے کے بعد کراچی میں این اے 249 کے ضمنی انتخاب میں بہت کم مارجن سے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل نے 15 ہزار 473 ووٹوں کے ساتھ دوسری پوزیشن حاصل کی تھی اور پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) نے انتخابی نتائج کو مسترد کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی: این اے-249 ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے قادر خان مندوخیل کامیاب
'بیلٹ پیپرز اور دیگر مواد کی محفوظ تحویل' کے عنوان سے سی ای سی کو لکھی گئی درخواست میں مسلم لیگ (ن) کے مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ 'پولنگ عملہ / پریذائیڈنگ افسران میں سے زیادہ تر کا تعلق سندھ کی صوبائی حکومت سے ہے اور انہوں نے حکمران جماعت کی غیر قانونی طریقے سے حمایت کی اور اس حوالے سے ہر امیدوار / پارٹیوں نے شکایت کی ہے'۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے میڈیا کو جاری کی جانے والی درخواست میں مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ 'ہم بیلٹ پیپرز اور دیگر مواد کی محفوظ تحویل / حفاظت کے بارے میں اپنی سنگین خدشات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں جو سندھ پولیس کی تحویل میں ہے، جو صوبائی حکومت کا محکمہ ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ بیلٹ پیپرز، انتخابی فہرستوں کی کاپیاں، بیلٹ پیپر اکاؤنٹس وغیرہ کو تبدیل کیا جاسکتا ہے جس سے پورا انتخابی عمل خراب ہوگا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'لہذا ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ بیلٹ پیپرز سمیت تمام انتخابی سامان کی تحویل کو برائے مہربانی الیکشن کمیشن (ای سی پی) سنبھالے اور معاملے کے حتمی فیصلے تک پاکستان رینجرز یا پاک فوج میں سے کسی کی نگرانی میں کسی محفوظ جگہ پر رکھا جائے'۔
انہوں نے نتائج کو روکنے کے لیے 'حکم امتناع' جاری کرنے اور ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے ان کی درخواست پر سماعت کا موقع فراہم کرنے کے لیے ای سی پی کی فوری مداخلت کی 'تعریف' کی۔
ای سی پی کے ایک اہلکار نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ قواعد کے تحت کسی بھی حلقے کا ریٹرننگ افسر وہاں کے انتخابی مواد کا نگہبان ہے۔
یہ بھی پڑھیں: این اے 249 ضمنی انتخاب: اے این پی، مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار کے حق میں دستبردار
انہوں نے کہا کہ شاید مسلم لیگ (ن) کے امیدوار یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ریٹرننگ افسر کو پولیس کے بجائے آرمی یا رینجرز کے ذریعے سیکیورٹی فراہم کی جانی چاہیے۔
قبل ازیں اسلام آباد میں پارٹی کے میڈیا آفس میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں فرحت اللہ بابر اور نیئر بخاری نے مسلم لیگ (ن) کی درخواست پر حلقہ این اے 249 میں دوبارہ گنتی کے لیے الیکشن کمیشن کے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ایسی درخواست دینا مسلم لیگ (ن) کا حق ہے اور پیپلز پارٹی نے اس کا خیرمقدم کیا کیونکہ وہ ای سی پی کو ایک مضبوط ادارے کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قواعد کے تحت ایسے حلقے میں دوبارہ گنتی کی جاسکتی ہے جہاں جیت میں مارجن 5 فیصد سے بھی کم ہو۔
فرحت بابر نے کہا کہ این اے 249 پیپلز پارٹی کے لیے نیا حلقہ نہیں کیونکہ 1988 کے انتخابات میں بھی ان کی پارٹی کے امیدوار اس حلقے سے جیتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے پاس ووٹوں کی اکثریت نہیں ہے لیکن ہمیں کافی حمایت حاصل ہے، پیپلز پارٹی نے بنیادی کام اور سرگرمیوں کا مظاہرہ کیا اور اب وہ جیت گئی ہے'۔
پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ ووٹوں کی گنتی کے عمل میں تاخیر کی وجہ صرف الیکشن کمیشن ہی بتا سکتا ہے تاہم وہاں 30 امیدوار اور 8 انتخابی مبصرین موجود تھے جنہیں رمضان کے دوران فارم 45 دینا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس مشق کے لیے ای سی پی کو 10 سے 12 فارمز کو پُر کرنا تھا۔
مزید پڑھیں: این اے-249 ضمنی انتخاب: مفتاح اسمٰعیل کی دوبارہ گنتی کی درخواست منظور
فرحت اللہ بابر نے کہا اگر پیپلز پارٹی یہ الیکشن ہار جاتی تو یہ معاملہ کبھی نہ اٹھتا۔
انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ دوبارہ ووٹوں کی گنتی میں پیپلز پارٹی کے ووٹوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'آپ کو ای سی پی کے پاس جانا چاہیے لیکن یہ نہیں کہنا چاہیے کہ پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے جیتی ہے، ہماری تحریک عمران خان کے خلاف ہے نہ کہ اپوزیشن کے'۔
انہوں نے کہا کہ 'اگر آپ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاہدے کے بارے میں بات کریں گے تو مسلم لیگ (ن) کے قائدین کی بیرون ملک روانگی اور ضمانتوں کی منظوری کے بارے میں بھی بات چیت ہوگی'۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے اندر اختلافات اور مولانا فضل الرحمٰن کی پیپلز پارٹی سے اتحاد میں شامل ہونے کی درخواست کے سوال کے جواب میں فرحت اللہ بابر نے کہا کہ یہ پیپلز پارٹی ہی ہے جس نے اپوزیشن اتحاد کی بنیاد رکھی تھی۔
انہوں نے کہا کہ 'یہ کون ہوتے ہیں جو پی ڈی ایم میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے ہم سے ان کے پاس جاکر بات کرنے کا کہہ رہے ہیں بجائے اس کے کہ وہ ہمارے پاس آئیں، شوکاز نوٹس واپس لیں اور ہم سے معافی مانگیں'۔
نیئر بخاری نے الزام لگایا کہ یہ مسلم لیگ (ن) ہے جس نے پی ڈی ایم کو نقصان پہنچایا ہے، پیپلز پارٹی اب بھی حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور عدم اعتماد کی تحریک کے لیے تیار ہے۔
کراچی ضمنی انتخاب کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر مندوخیل ایک سیاسی کارکن ہیں اور وہ گزشتہ کئی برسوں سے اس حلقے میں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) جیسے ٹیکنوکریٹ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو نامزد کرکے سینیٹ انتخابات میں شکست کھا چکی ہے، اسی طرح مسلم لیگ (ن) نے بھی ضمنی انتخاب میں ایک اور ٹیکنوکریٹ مفتاح اسمٰعیل کو متعارف کرایا تھا۔
نیئر بخاری نے اس امید کا اظہار کیا کہ ای سی پی قانون کے مطابق فیصلے کرے گی۔
مزید پڑھیں: ڈسکہ سے کراچی، انتخابی نااہلی کی طویل داستان
پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس کے فوراً بعد مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مصدق ملک نے ایک بیان میں 'پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو تحریک انصاف کی بی ٹیم بننے پر مبارکباد دی'۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نے یہ کہتے ہوئے پیپلز پارٹی پر تنقید کی کہ ایسی جماعت جس کے پنجاب سے صرف 7 اراکین اسمبلی ہیں وہ قانون سازوں سے پنجاب کے لانگ مارچ اور عدم اعتماد کی تحریکوں کی بات کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں عدم اعتماد کی تحریک لانا چاہتی ہے جیسے اس نے این اے 249 میں ہونے والے انتخابات اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا دفتر 'چوری' کیا۔
مسلم لیگ (ن) کے ایک اور رہنما طلال چوہدری نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت کی حمایت سے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پیپلز پارٹی اپوزیشن پارٹی کہلانے کا لائق نہیں رہی۔