• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

ڈی ایچ اے وکیل کی عدالت سے فوج کو 'قبضہ مافیا' قرار دینے کے ریمارکس حذف کرنے کی درخواست

شائع April 29, 2021
ڈی ایچ اے کے وکیل نے عدالت سے فوج کے خلاف ریمارکس خارج کرنے کی استدعا کی— فائل فوٹو:
ڈی ایچ اے کے وکیل نے عدالت سے فوج کے خلاف ریمارکس خارج کرنے کی استدعا کی— فائل فوٹو:

ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے وکیل نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان سے ایک دن قبل پاک فوج کو 'سب سے بڑا قبضہ مافیا' قرار دینے کے ریمارکس حذف کرنے کی استدعا کی ہے۔

چیف جسٹس قاسم خان 3 شہریوں کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کررہے تھے جس میں انہوں نے ڈی ایچ اے کے خلاف حکم جاری کرنے کی استدعا کی تھی کہ وہ متروکہ وقف املاک بورڈ سے لیز پر حاصل کی گئی ان کی اراضی کے جائز قبضے میں مداخلت نہ کریں۔

مزید پڑھیں: لگتا ہے کہ فوج 'سب سے بڑا قبضہ مافیا' بن گئی ہے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈی ایچ اے سے کون آیا ہے جس پر ڈی ایچ اے کے وکیل نے جواب دیا کہ ڈی ایچ اے سے ڈائریکٹر لیگل آئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی(ایل ڈی اے) اس معاملے میں فریق بن گیا ہے اور ایل ڈی اے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نہ بنیں۔

انہوں نے کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ایل ڈی اے کے لیگل ایڈوائزر عامر نے خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔

ڈی ایچ اے کے وکیل نے کہا کہ سر آپ نے گزشتہ روز جو آرمی کے بارے میں ریمارکس دیے اس سے آرمی میں تشویش پائی جا رہی ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ آرمی کے بارے میں ریمارکس کو حذف کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: ڈی ایچ اے کا متروکہ زمین کا دعویٰ کرنے پر چیف جسٹس کا اظہار برہمی

چیف جسٹس نے ڈی ایچ اے کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آرمی کے ایکٹنگ اور سرونگ لوگ ڈی ایچ اے میں بیٹھ کے کام کریں گے تو آپ اپنے لوگوں کو سمجائیں، خدا کے لیے اپنے لوگوں کو سمجھائیں۔

ڈی ایچ اے کے وکیل نے کہا کہ عدالت کے ریمارکس فوج کے خلاف تھے اور عدالت سے فوج کے خلاف ریمارکس خارج کرنے کی استدعا کی۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ سیاچن گلیشیر، کشمیر، بہاولنگر کے بارڈ پر بیٹھے آرمی کے جوان کی بھی لوگ عزت کرتے ہیں اور سب سے پہلے یہ ذمے داری کا احساس کرنا ہے، ریمارکس کلاس کے لیے نہیں بلکہ آپ کے کچھ لوگوں کے کنڈکٹ کے بارے میں تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے کہا گیا کہ اگر میں کہیں جاؤں تو جج ہی لگوں، بطور چیف جسٹس مجھ ہر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، میں جب چیف جسٹس ہوں تو مجھے چیف جسٹس کے طور پر برتاؤ کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: ڈی ایچ اے کے خلاف قیوم آباد کی طویل جنگ

جسٹس قاسم خان نے کہا کہ چار وکیل سڑک پر جا کر کسی رکشے یا رہڑی والے کے ساتھ دنگا فساد کرتے ہیں تو وکلا بدنام ہوتے ہیں، اگر ہائی کورٹ کا جج ریٹائرڈ ہو کر بھی کسی ادارے یا ٹربیونل میں بیٹھا ہے تو اسے اپنا تشخص برقرار رکھنا ہے، جج کو دیکھنا چاہیے کہ اس کے فیصلے ادارے کے مطابق ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اگر فوج کے ریٹائرڈ لوگ ڈی ایچ اے میں آکر غلط کام کریں گے تو فوج بدنام ہو گی، جب کوئی شخص کسی ادارے میں آجاتا ہے تو پھر اس کا احتساب ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میری شاید آدھی سے زیادہ فیملی فوج میں ہے، ملک کا قانون ہے کسی کی اراضی پر کوئی قابض نہ ہو، میری جائیداد پر کوئی ناجائز قابض ہو جائے تو میں اسے بھی زور زبردستی نہیں نکال سکتا۔

ڈائریکٹر لیگل ڈی ایچ اے نے اس موقع پر عدالت کو معاملے پر بریفنگ دی۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 2007 کے فیصلے میں ڈی ایچ اے کا زمین پر حق معطل ہو چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی ایچ اے سٹی کے باعث کسان اپنی زرعی اراضی سے محروم

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایف اے ٹی ایف سے زیادہ بڑا ایشو بنے گا، اداروں کا احترام فوقیت ہے، عدالت کے ریمارکس کسی کا دل دکھانے کے لیے نہیں تھے بلکہ چند لوگوں کے لیے یہ ریمارکس دیے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایل ڈی اے کے لوگ فریق بن گئے اور ڈی ایچ اے نے اراضی پر قبضے کے بعد مراسلہ جاری کیا۔

انہوں نے استفسار کیا کہ ڈی ایچ اے نے کب قبضہ کیا تھا، بتائیے، میں آج ہائی کورٹ کی پوری عمارت کسی کو نہیں دے سکتا۔

عدالت کا درخواست گزاروں کی زمین کی قانونی حیثیت تبدیل نہ کرنے کا حکم ڈی ایچ اے کے لیگل ایڈوائزر کو ہدایت کی کہ ڈی ایچ اے انتظامیہ سے ہدایات لے کر 3 مئی کو پیش ہوں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس محمد قاسم خان نے زمینوں پر 'غیر قانونی' قبضوں میں ملوث ہونے پر ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ لگتا ہے کہ فوج 'سب سے بڑا قبضہ مافیا' بن گئی ہے۔

مزید پڑھیں: ڈی ایچ اے والوں کا بس چلے تو سمندر میں شہر بنا لیں، جسٹس گلزار

انہوں نے مزید کہا تھا کہ فوج کی وردی خدمت کے لیے ہے، بادشاہ کی طرح حکمرانی کرنے کے لیے نہیں ہے۔

جسٹس قاسم خان نے کہا تھا کہ انہوں نے فوج کے خلاف کچھ غلط نہیں کہا ہے اور اللہ تعالی نے ان سے سچ کہلوایا ہے، جس طرح فوج لوگوں کی جائیدادوں پر قبضہ کررہی ہے یہ زمینوں پر قبضے کے سوا کچھ نہیں۔

چیف جسٹس قاسم خان نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا تھا کہ فوج نے ہائی کورٹ کی بھی 50 کنال کی اراضی پر قبضہ کررکھا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Apr 29, 2021 10:55pm
سچ کڑوا ہوتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024