ایشیائی ترقیاتی بینک کی پاکستان کیلئے 2 فیصد شرح نمو کی پیش گوئی
اسلام آباد: ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے رواں سال کے دوران پاکستان کی جی ڈی پی میں 2 فیصد اضافے کی پیش گوئی کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اے ڈی بی نے اپنے فلیگ شپ ایشین ڈیولپمنٹ آؤٹ لک (اے ڈی او) 2021 میں کہا ہے کہ 'بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ استحکام کے پروگرام کے تحت معاشی اصلاحات پر عمل درآمد اور ویکسین کے کامیاب رول آؤٹ سے مالی سال 2022 میں جی ڈی پی میں 4 فیصد تک اضافے کی توقع ہے'۔
تاہم اقتصادی نقطہ نظر منفی خطرات سے مشروط ہے جس کا انحصار قابو پانے کے مستقل اقدامات اور دسمبر 2021 کے آخر تک 70 فیصد آبادی کو حفاظتی ویکسین لگانے کے ہدف کو حاصل کرنے پر ہے۔
وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے بالترتیب 2.9 اور 3 فیصد نمو کے تخمینے کے مقابلے میں 'اے ڈی بی' کی پیش گوئی، عالمی بینک کی جانب سے کی گئی 1.3 فیصد اور آئی ایم ایف کی 1.5 فیصد کی پیش گوئی کے قریب ہے۔
مزید پڑھیں: آئی ایم ایف کی پاکستان میں مہنگائی، بے روزگاری میں اضافے کی پیش گوئی
اس میں کہا گیا ہے کہ افراط زر اس سال کم ہوکر 8.7 فیصد ہوجائے گا جو گزشتہ مالی سال 10.7 فیصد تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ جی ڈی پی، مالی سال 2019 میں 1.9 فیصد تک بڑھی تھی تاہم مالی سال 2020 میں اس میں 0.4 فیصد کمی آئی جس کی وجہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات تھے اور اس سے قبل معاشی استحکام کی کوششیں وبا سے قبل شروع کردی گئی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق 'منفی رجحان میں مزید ابتر صورتحال روپے کی قدر میں کمی اور مالی پابندیوں سے سامنے آئی'۔
منیلا میں مقیم قرض دینے والی ایجنسی نے پیش گوئی کی ہے کہ اس سال جنوبی ایشیائی خطے میں 9.5 فیصد کی شرح نمو ہوگی جس کی قیادت بھارت میں 11 فیصد اور مالدیپ میں 13 فیصد کریں گے۔
بنگلہ دیش کی معیشت میں 6.8 فیصد اضافہ ہوگا جبکہ افغانستان اور نیپال میں جی ڈی پی کی 3 فیصد ترقی اور سری لنکا میں 4.1 فیصد اضافہ ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی معیشت 1.5 فیصد تک بڑھے گی، موڈیز کی پیش گوئی
بھوٹان کی معیشت 3.4 فیصد تک بڑھے گی جبکہ اقتصادی پاور ہاؤس چین میں اس سال 8.1 فیصد تک اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
اے ڈی بی نے کہا کہ پاکستان کی زراعت میں سست نمو کی پیش گوئی کی گئی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شدید بارش، کیڑوں کے حملوں اور کاشت والے علاقے میں مسلسل کمی کے بعد روئی کی پیداوار بہت کم ہوئی ہے۔
حکومت کی جانب سے زراعت کے لیے بینک کریڈٹ کے ذریعے سبسڈی کے بعد دیگر اہم فصلیں خاص طور پر چاول، گنے اور مکئی مالی سال 2021 میں اضافی پیداوار کی جانب جارہے ہیں۔
صنعت اور سروسز پہلے ہی مالی سال 2021 میں بحالی کے آثار دکھا رہی ہیں، بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ جو صنعت کے شعبے میں آدھے سے زیادہ حصص رکھتی ہیں، مالی سال 2020 کے پہلے 7 ماہ میں بحال ہوتے ہوئے 3.2 فیصد سے مالی سال 2021 کی اسی مدت کے دوران 7.9 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔
کم شرح سود اور مالی سال کے آغاز میں بجلی کے نرخوں میں مزید ایڈجسٹمنٹ اور فوڈ سپلائی میں مداخلتوں کے باوجود مالی سال 2021 میں افراط زر کی شرح 8.7 فیصد ہوجائے گی۔
یہ جزوی طور پر گندم اور چینی کی درآمدات کے لیے سرکاری سبسڈی کی عکاسی کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: آئی ایم ایف نے ملک میں نمو کی پیش گوئی کو ایک فیصد تک کم کردیا
اقتصادی بحالی کے لیے مرکزی بینک نے اپنی پالیسی شرح 7 فیصد پر رکھی ہے، یہ سازگار موقف افراط زر کی کم توقعات اور مستحکم شرح تبادلے کے ذریعے ممکن ہوا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مالی سال 2021 کے پہلے نصف حصے میں نجی شعبے کے قرضوں میں اضافہ ہوا جس کی بنیادی وجہ تعمیراتی، ہول سیل اور ریٹیل تجارت اور صارفین کے اخراجات ہیں۔
مالی استحکام دوبارہ شروع ہونے کی امید اور حکومت کے مرکزی بینک سے قرض نہ لینے کی اپنی پالیسی جاری رکھنے کے امکان کے ساتھ توقع ہے کہ مالی سال 2022 میں افراط زر کی شرح 7.5 فیصد ہوجائے گی۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مالی سال 2021 میں جی ڈی پی کے ایک فیصد کے مساوی کم ہوسکے گا جو مضبوط ترسیلات زر کی حمایت سے ہوگا۔
مالی سال 2022 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک بار پھر وسیع ہونے کا امکان ہے جو جی ڈی پی کے 2 فیصد کے برابر ہوجائے گا۔
اس وبا نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کو اپنے نجی شعبے کے چیلنجز سے نمٹنے کی ضرورت ہے خاص طور پر ایس ایم ایز (چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں) کے چیلنجز جو غیر رسمی طور پر کام کرتی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 33 لاکھ ایس ایم ایز تقریبا 4 کروڑ گھرانوں کو کاروباری سرگرمیوں میں مشغول رکھتی ہیں۔
تاہم جی ڈی پی میں ان کی شراکت دوسرے کم آمدنی والے ممالک کی نسبت کم ہے جہاں یہ 60 فیصد تک ہے۔
عام طور پر ایس ایم ایز میں معاون عوامی شعبے ہنر مند مزدوری، تجارتی صلاحیت اور مالی اعانت کا فقدان ہے۔
صرف 21 فیصد بالغ افراد اور 7 فیصد خواتین کے بینک اکاؤنٹ ہیں جو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔
بنگلہ دیش میں مثال کے طور پر 50 فیصد بالغ اور 36 فیصد خواتین کے بینک اکاؤنٹس ہیں۔
کریڈٹ ایک بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ تجارتی بینک، ایس ایم ایز کو قرض دینے کو ترجیح نہیں دیتے ہیں۔