پردیس سے دیس: کرائے کا پہلا گھر (دوسری قسط)
گزشتہ قسط یہاں پڑھیے
پاکستان واپسی جہاں مجھے تکلیف دیتی تھی وہیں تھوڑا فرحت کا احساس بھی بخشتی کہ بالآخر میں واپس اس دنیا میں لوٹ سکوں گی جس کی کمی زندگی کو محروم مراد دکھاتی تھی۔
اسلام آباد میں عارضی رہائش کے لیے جس ہوٹل کا انتخاب کیا تھا وہ کرائے اور لوکیشن کے حساب سے تو خاصا لگژری ہونا چاہیے تھا مگر پاکستان اترتے ہی سب سے پہلے اس ہوٹل کو دیکھا تو احساس ہوا کہ لگژری کا مطلب کئی سیڑھیاں اتر کر خاصا نیچے آگیا ہے۔ 2 کمروں کے ایک فلیٹ میں انتہائی بنیادی معیار کی اشیائے ضرورت اور سازو سامان، باتھ روم انتہائی بنیادی اور صفائی ستھرائی کا معیار خاصا پسماندہ، عرب امارات کے معیار سے خاصا کم تر، حتیٰ کہ ہمارے سفید پوش لوگوں کے گھروں کی تعمیرات و معیار بھی اس پوش علاقے کے مہنگے ہوٹل کے کمرے سے بہتر تھی۔
مگر آہستہ آہستہ ہم پر یہ آشکار ہوا کہ جو سب سے پسماندہ چیز ہم نے پاکستان میں دیکھی وہ کچھ لوگوں کا اخلاق و کردار ہے جس کی مجموعی حالت شہر کی گلیوں، اعلیٰ جگہوں پر لگی پست معیار کی چیزوں اور تعمیرات کی خستہ حالی سے بڑھ کر زوال پذیر ہے۔ اس کی وضاحت آہستہ آہستہ سامنے آتی رہے گی۔
شہر میں نکلے تو ایک عرصے بعد سبزے کی بہار دیکھی، جولائی کے مہینے میں سڑکوں پر جھاڑیاں بھی اس قدر خوش رنگ پتوں اور رنگ سے لدی ہوئی تھیں کہ ان کو دیکھ دیکھ دل ہی نہ بھرتا۔ ابوظہبی جیسے جدید شہر میں کارپیٹڈ سڑکیں، نفاست سے تراشی ہوئی ہریالی، چمکتی عمارتیں، جگمگاتے ٹاورز تو دکھائی دیتے ہیں مگر سبزے اور پھولوں کے جو رنگ اور بہتات پاکستان میں ہے یقینی طور پر عرب امارات کے صحرا میں یہ نعمت میسر نہیں ہے۔ اپنا سرمایہ اور محنت لگا کر بھی وہاں صرف مخصوص قسم کا محدود سبزہ ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ یہ لدے پھدے درخت پاکستان کے لیے خدا کی مفت نعمت ہیں اور دنیا کی ہر نعمت پیسے سے نہیں خریدی جاسکتی۔
شروع کے دن سامان کے انتظار میں تھے سو فراغت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گھومنے نکلے اور مری کی طرف رخ کیا۔ یہ سفر کم سے کم میرے بچوں نے زندگی میں پہلی بار کیا اور میں نے تقریباً 10 برس بعد۔ گزشتہ ایک دہائی تک پاکستان کا سفر صرف کبھی کبھار کا والدین کے شہر تک کا رہ گیا تھا۔ وہیں اترتے اور وہیں سے واپسی کی راہ پکڑتے رہے تھے۔ فجیرہ، العین اور سعودیہ کے چٹانی کالے اور سرخ پہاڑ تو خوب گھومے پھرے تھے مگر سرسبز پہاڑ ایک طویل عرصے بعد دیکھے تو فرحت کا احساس روح تک سما گیا۔
خدا پاکستان پر بہت مہربان ہے کہ اتنی خوبصورت وادیاں اور شجر، پہاڑ اور نظارے اس نے یہاں کے انساں کو اس قدر فراغ دلی سے نواز رکھے ہیں۔ امارات میں العین میں ہم دیکھ چکے تھے کہ کس طرح ایک چھوٹی سی پہاڑی پر کس قدر محنت سے ہلکا پھلکا سبزہ کرنے کے لیے کتنے پاپڑ بیلے جاتے تھے اور یہاں نیچے سے اوپر تک سبز جنگلات بھرے تھے اور یہاں کا انساں شاید اس نعمت سے ہی بے خبر تھا۔ میں نے سوچا کیسے کیسے گرم موسم یہ وادیاں اور جنگل نگل جاتے ہوں گے، اس دنیا کے انساں کے حصے کے کیسے کیسے تپتے سورج یہ وادیاں چوس جاتی ہوں گی۔
مگر ایسا ہے کہ انسان بہت ہی محدود اور ناشکرا ہے، اسے چیونٹی کی طرح ایک بڑے لال دائرے میں رکھ دیا جائے تو وہ سمجھتا ہے ساری کائنات لال ہے، سبز میں رکھ دو تو سمجھتا ہے دنیا میں سبز کے سوا کوئی وجود ہی نہیں۔ یہی محدود حد نظر اُسے ناشکرا بنا دیتی ہے اور وہ نعمتوں کی بہتات کو بس قدرت کا نظام سمجھنے پر بضد ہوجاتا ہے اور اس کے اعتراف سے کنی کترانے لگتا ہے۔
شاید اسی لیے تو قرآن جاننے اور سمجھنے کی کوشش پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے، تبھی تو خدا کہتا ہے زمیں پر پھیل جاؤ اور خدا کا فضل تلاش کرو۔ مگر انسان اس پھیلنے کو صرف اپنے شہر کی سڑکوں تک پھیلنے پر محدود کرلیتا ہے اور اپنے وجود سے باہر سوچنے سے اجتناب کرتا ہے۔
ایک آدھ دن آرام کرکے کرائے کے لیے ایک پورشن ڈھونڈنے کے مشن پر نکلے۔ سب سے پہلا گھر جس میں ایک پراپرٹی ڈیلر ہمیں لے گیا وہ ایک ڈاکٹر کا تھا، جو ایک کینال پر پھیلا ہوا تھا اور باہر کا حصہ شیشے کی کھڑکیوں اور خوبصورت سبزے سے سجا ہوا تھا۔ باہر سے دیکھ کر لگا کہ شاید پہلے ہی قدم پر منزل مل گئی، مگر پہلی منزل پر پہنچ کر کمروں میں جھانکا تو الٹیاں آنے لگیں۔ ڈاکٹر صاحب کا زور کھلے کمرے اور فل سائز کھڑکیاں دکھانے پر تھا مگر خاتون خانہ ہونے کی حیثیت سے میری تمام تر توجہ کچن اور باتھ روم میں جھانکنے پر تھی کہ صرف یہی 2 جگہیں تعین کرسکتی ہیں کہ جگہ رہائش کے قابل ہے یا نہیں، اور جو حال اس کا دیکھا تو چکر آگئے۔
گندے فلش والے باتھ روم جن میں باقاعدہ فضلہ موجود ہو اور انتہائی گندا کچن دیکھنے کے بعد کھڑکیوں سے نظر آتے نظارے کو کیا سر پر مارتے۔ ایسا گندا گھر دکھاتے ڈاکٹر صاحب کو تو شرم نہ آئی، مگر ہم سے واپس نکلتے پھر ڈاکٹر صاحب کا چہرہ تک نہ دیکھا گیا۔ کوئی کیسے اپنا گھر اتنی گندی حالت میں کسی کو کرائے پر لینے کے لیے پیش کرسکتا ہے، یہ صورتحال ہماری ذہنی سطح سے کافی اوپر کی تھی۔ مگر اگلے کچھ دنوں میں ہم بالآخر ذہنی بلندی کے اس لیول کو چھونے لگے جب ہم نے اس 'پراپرٹی ڈان' کے پوش علاقے میں کرائے کے لیے مہیا تمام تر پورشنز دیکھ لیے۔
ہم نے مان لیا کہ عین یہی دستور زمانہ ہے اپنے ملک کے اعلیٰ ترین شہر کے اعلیٰ ترین علاقے کے اعلیٰ ترین حلقوں میں۔ انتہائی خستہ حال، بنیادی مینٹیننس سے بھی عاری فلور اور کرائے سر اٹھا کر گردن اکڑا کر 60، 70 ہزار روپے فی مہینہ۔ پھر مالکان کا اس قدر خشونت زدہ رویہ جیسے وہ کرائے پر دینے کے بجائے ہمیں خیرات میں اللہ واسطے دے رہے ہوں۔ یہاں عرب امارات خصوصاً ابوظہبی کا ذکر بہت ضروری ہے۔ ابوظہبی عرب امارات کا دارالحکومت ہونے کی بنا پر ہر لحاظ سے دبئی سے کئی گناہ ترقی یافتہ اور محفوظ ہے۔
وہاں پر کسٹمر رائٹ کی بے پناہ اہمیت ہے۔ آپ نے جو چیز خریدنی ہے یا کرائے پر لینی ہے اس پر آپ کے بہت سے حقوق ہیں۔ مثال کے طور پر وہاں مالک مکان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ گھر کرائے پر دینے سے پہلے مکمل طور پر صاف کروائے گا اور اس کی تمام تر فِنیشنگ اور پینٹ کی ذمہ داری بھی مالک مکان کے کاندھوں پر ہی ہوگی۔ صرف یہی نہیں بلکہ آئندہ بھی یہ تمام تر مینٹیننس اس کی ذمہ داری ہے، گندا فلور تو کوئی کسی کو دکھا تک نہیں سکتا۔
اس کے علاوہ اپنی جگہ کرائے پر دینے کے بعد مالک مکان، اپنے مکان سے بالکل قطع تعلق ہوجائے گا۔ کتنے سال ہم مالک مکان کے وِلا کے ساتھ والے وِلا میں رہے مگر کبھی مالکن خاتونِ خانہ ہمارے دروازے تک نہ آئیں۔ الٹا ہمیں ان کو بار بار فون کرنے پڑتے کہ موٹر خراب ہوگئی ہے یا اے سی کام نہیں کررہے تو ہمیں شرم آتی۔ یہاں تو حالات ایسے تھے کہ گھروں کے کرائے پر دیے جانے والے حصے ایسے تھے جیسے صدیوں سے ان پر کسی نے کبھی جھاڑو تک نہ دی ہو اور رویے ایسے جیسے محل ہمارے لیے خالی کردیے گئے ہوں۔
ان دنوں ہماری وہ دوست فیملی جن کے بھروسے ہم اس علاقے میں شفٹ ہوچکے تھے، اپنے ڈیلر دوست کے ذریعے انہوں نے ہمیں ایک فلور دکھایا جو ہمیں اگرچہ اس لیے پسند آیا کہ زیرِ استعمال نہیں رہا تھا تو صاف ستھرا اور چمکتا تھا۔ دوسرا اس لیے کہ میاں صاحب نے گھوم پھر کر دیکھا تو ٹی وی، اے سی لگے تھے، میاں نے حساب کتاب کیا کہ چلو ان چیزوں کا خرچہ بچے گا، جو بعد میں ہمارے لیے 4 گنا مہنگا ثابت ہوا۔
مجھے یہ گھر صرف اس لیے قابلِ قبول تھا کہ بالکل نیا تھا، البتہ اس کی لش پش پر غیر ضروری کام نو دولتیہ پن ظاہر کرتا تھا جو مجھے خاصا نامناسب لگتا۔ ایسے جیسے انساں سارا ہی زیور سارے جسم پر ٹانگ لے۔ دیواروں اور کمروں میں اس قدر غیر ضروری پھول بوٹے، شیشے اور ڈیزائن تھے کہ پینٹنگز اور وال ہینگنگ کی جگہ ہی نہیں بچی تھی، جو میرے سامان میں پہلے سے خاصی بڑی تعداد میں موجود تھیں۔ ایک اور وجہ وہ دوست تھے جو اپنی ذمہ داری پر ہمیں وہ گھر دلوا رہے تھے۔ پہلے ہی ان کی عارضی رہائش کے لیے کی گئی آفر ہم منع کرکے ان کو ناراض کرچکے تھے، سو انہیں مزید خفا نہیں کرنا چاہتے تھے سو اس مرتبہ یہ بار ہم نے اٹھا لیا۔
ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ گھر ون یونٹ تھا اور اوپر جانے کا الگ کوئی راستہ نہیں تھا جبکہ مین بیڈ روم باہر سیڑھیوں پر الگ سےکھلتا۔ اس کا ہم سے وعدہ کیا گیا کہ ہم جلد ہی گتے کی شیٹ سے علیحدہ کروا دیتے ہیں۔ ہم نے ان کی باتوں اور اپنے دوستوں کے اختیارات پر اعتماد کرتے ہوئے ایک کثیر کرائے کی رقم اور سیکیورٹی ڈِپازٹ کے ساتھ 15 جولائی کو معاہدے پر دستخط کردیے جس کے مطابق 2 سال تک کے لیے یہ فلور ہمارا ہوچکا تھا۔
اسی دن ہمارا سامان سے بھرا کنٹینر براستہ کراچی اس گھر کے سامنے آ کھڑا ہوا لیکن ابھی تک پارٹیشن کا کوئی بندوبست نہیں ہوا تھا۔ مگر وعدے کی حرمت اور دوستوں کی ذمہ داری پر یقین تھا، سو ابوظہبی سے سمندر کے رستے براستہ کراچی آیا ڈبوں اور کنٹینر میں سامان اس مکان کے اوپر والے فلور پر کھلنے لگا جسے ہم اپنا گھر بنانے کی کوشش میں تھے۔
سارا سامان اس گھر میں کھلنے لگا اور سیٹ ہونے لگا۔ یہ وہ کام تھا جو بار بار دہرانا بہت ہی مشکل تھا۔ میاں کی تھوڑی سی چھٹیاں ختم ہونے کو تھیں، اور ہمارے پاس مزید ڈھونڈنے اور کسی اور آپشن پر غور کرنے کا وقت بھی ختم ہوچکا تھا۔ ہم اپنے حساب سے گھر ڈھونڈنے اور سامان سیٹ کروانے کے مراحل پار کر رہے تھے۔ مگر یہ محض ہماری بھول ثابت ہوئی۔
سب سے پہلے تو پیسے وصول کرتے ہی مالک مکان نے ٹی وی دیوار سے اتروا لیا کہ بیگم صاحبہ دینے پر آمادہ نہیں۔ میں ساتھ نہیں تھی سو مروت میں میرے میاں یہ دھوکا سہہ گئے۔ میں ہوتی تو اسی وقت گھر لینے سے انکار کردیتی کہ دکھایا کچھ گیا اور کیا کچھ اور جا رہا ہے۔ مگر میاں صاحب مروت اور دوست فیملی کی وجہ سے کچھ بھائی چارے کے موڈ میں تھے۔
بعد میں جانا یہ انتہا نہیں ابتدا ہے۔
تبصرے (2) بند ہیں