• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

چین کی ٹیکنالوجی کمپنیاں الیکٹرک گاڑیوں میں قدم جمانے کیلئے بے چین کیوں؟

شائع April 21, 2021
چین دنیا میں گاڑیوں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے — اے ایف پی فوٹو
چین دنیا میں گاڑیوں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے — اے ایف پی فوٹو

چین کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے اسمارٹ فون کے بعد گاڑیوں کے شعبے میں قدم جمانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

خبررساں ادارے اے ایف پی نے انڈسٹری ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ڈیجیٹل مارکیٹ کی جنگ میں گاڑیاں اب اہم ترین انعام بن گئی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق چینی کمپنیاں اسمارٹ الیکٹرک گاڑیوں بنانے کے لیے سرمایہ کاری کرنے کے ساتھ خودکار گاڑیاں تیار کرنے کے شعبے میں قدم رکھنے والی ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں ہواوے اور شیاؤمی جیسی اسمارٹ فونز تیار کرنے والی کمپنیوں، ای کامرس لیڈر علی بابا اور دنیا کی سب سے بڑی ڈرون تیار کرنے والی کمپپنی ڈی جے آئی نے اس شعبے میں قدم رکھنے کے اعلانات کیے ہیں۔

چین کی الیکٹرک گاڑیاں (ای وی) تیار کرنے والی کمپنی نیو کے بانی، چیئرمین اور سی ای ایو ولیم لی نے شنگھائی آٹو شو کے شروع ہونے کے موقع پر اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا 'اس طرح کی مسابقت ایک اچھی چیز ہے اور جدت کا سفر تیز ہوسکے گا

یہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران آٹو انڈسٹری کا پہلا بڑا ایونٹ ہے جس میں لوگوں کو شرکت کی اجازت دی جارہی ہے۔

چین دنیا کی سب سے بڑی اور توسیع پذیر آٹو مارکیٹ ہے جہاں وبا کے بعد کمپنیوں کو مستقبل روشن نظر آرہا ہے۔

2020 میں چین میں گاڑیوں کی فروخت 2 فیصد کمی سے ڈھائی کروڑ سے کچھ زیادہ رہی تھی جو عالمی فروخت کے ایک تہائی کے قریب ہے، مگر الیکٹرک گاڑیوں کی مقبولیت میں اضافے کے بعد چین میں مارکیٹ تیزی سے ریکور ہورہی ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مارچ کے مہینے میں گاڑیوں کی مجموعی فروخت میں الیکٹرک گاڑیوں کا حصہ 9 فیصد تھا۔

چین کی حکومت کو توقع ہے کہ 2025 تک جدید ٹرین ڈرائیونگ ٹیکنالوجی سے لیس گاڑیوں کی فروخت 25 فیصد تک پہنچ جائے گی اور حالیہ اعلانات سے بھی یہی عندیہ ملتا ہے۔

شیاؤمی نے بہت تیزی سے دنیا کی چند بڑی اسمارٹ فونز کمپنیوں میں شامل ہوئی اور اب وہ ایک دہائی کے دوران 10 ارب ڈالرز اسمارٹ ای وی شعبے پر لگائے گی جبکہ ہواوے کی جانب سے 2021 میں اس شعبے میں ایک ارب ڈالرز خرچ کیے جائیں گے۔

علی بابا سے منسلک خودکار گاڑیوں کے یونٹ آٹو ایکس نے جاپانی کمپنی ہونڈا سے شراکت داری کرتے ہوئے چینی شاہراؤں پر گاڑیوں کی آزمائش کا عمل تیز کردیا ہے۔

چین کی ایک اور بڑی ٹیکنالوجی کمپنی بیدو نے حال ہی میں کہا تھا کہ اس کا اپولو آٹونومس نیوی گیشن سسٹم آئندہ 3 سے 5 سال کے دوران 10 لاکھوں گاڑیوں میں نصب کیا جائے گا۔

چینی کمپنیوں کے یہ اعلانات اس وقت سامنے آئے ہیں جب ایل کے ایک خودکار ڈرائیونگ کی صلاحیت رکھنے والی گاڑی کی تیاری کے خفیہ پراجیکٹ میں تیزی آئی ہے۔

اسی طرح آٹو موبائل کا شعبہ کمپنیوں جیسے ہواوے کے لیے ایک ایسا موقع بن کر سامنے آیا ہے جب اسے امریکی پابندیوں کے نتیجے میں اسمارٹ فونز بزنس میں نقصانات کا سامنا ہے۔

شنگھائی آٹو ڈیٹاز کو کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر چن یوشینگ نے بتایا کہ ہواوے کو احساس ہوگیا ہے کہ مارکیٹ میں اس کی رسائی محدود ہورہی ہے۔

انہوں نے کہا 'ہواوے مستقبل میں ایک نئے شعبے میں داخل ہوگی، جس میں اسے سافٹ ویئر اور ہارڈویئر کے امتزاج کے حوالے سے سبقت بھی حاصل ہوگی، جس سے اسے برق رفتار سے اسمارٹ اور خودکار ڈرائیونگ والی گاڑیاں تیار کرنے میں مدد مل سکے گی'۔

یہاں تک کہ اس شعبے میں ہواوے کی مسابقت کرنے والی کمپنیاں کافی پرجوش نظر آتی ہیں۔

ڈونگ فینگ نسان کے منیجنگ ڈائریکٹر انٹونی بارٹس نے کہا 'ٹیکنالوی کمپنیوں کو اس شعبے میں دیکھنا حوصلہ بخش ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس صنعت کا مستقبل روشن ہے'۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024