امریکا میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کا قتل، سابق پولیس اہلکار مجرم قرار
امریکی ریاست منی ایپلیس کے ایک سفید فام پولیس افسر ڈریک چووِن کو افریقی نژاد امریکی جارج فلائیڈ کے قتل کا مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں پولیس کے احتساب کے لیے ایک ٹیسٹ کیس تصور ہونے والے معاملے میں عدالت نے 45 سالہ ڈریک چوون کو تینوں الزامات، سیکنڈ ڈگری قتل، تھرڈ ڈگری قتل اور قتل عام میں مجرم قرار پایا ہے۔
عدالت میں تین ہفتوں کی سماعت کے بعد مقدمے کے مذکورہ فیصلے کے اعلان پر منی ایپلیس کورٹ روم کے باہر موجود ہجوم میں اس فیصلے کے بعد خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
ضمانت پر موجود ڈریک چوون کے کیس میں 7 خواتین اور 5 مردوں پر مشتمل جیوری کے متفقہ فیصلے کو جج پیٹر کاہل نے پڑھ کر سنایا جس کے بعد انہیں ہتھکڑیاں لگادی گئیں۔
مزید پڑھیں: جارج فلائیڈ قتل: ملزم پولیس اہلکار کی ضمانت کیلئے 10 لاکھ ڈالر کی رقم مقرر
ڈریک چوون نے چہرے پر ماسک پہن رکھا تھا اور فیصلہ سننے کے بعد انہوں نے کسی قسم کے تاثرات ظاہر نہیں کیے اور انہیں ایک ڈپٹی کمرہ عدالت سے باہر لے گئے۔
انہیں سب سے سنگین، سیکنڈ ڈگری کے قتل کے الزام میں 40 سال قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑسکتا تاہم سزا کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
جارج فلائیڈ کے بھائی روڈنی نے اے ایف پی کو بتایا کہ امریکا میں سیاہ فام افراد کئی سالوں سے حکام کی جانب سے ناانصافی کا سامنا کر رہے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'ہمیں اس کیس میں فتح کی ضرورت تھی، یہ بہت اہم ہے اور ہمیں یہ مل گیا، ہم اب کچھ بہتر محسوس کرسکیں گے'۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے جارج فلائیڈ کے اہلخانہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان فیصلوں سے انہیں 'راحت' ملی ہے۔
بعد ازاں انہوں نے اور امریکا کی نائب صدر کمالا ہیریس نے ٹی وی پر قوم سے خطاب کیا۔
یہ بھی پڑھیں: واشنگٹن سمیت امریکا بھر میں نسل پرستی کے خلاف ہزاروں افراد کا احتجاج
جو بائیڈن نے کہا کہ 'امریکا میں انصاف کے حصول کے لیے یہ ایک بہت بڑا قدم ہوسکتا ہے۔
انہوں نے عوام سے نسل پرستی اور تشدد کے خلاف 'متحد ہونے' کا مطالبہ بھی کیا۔
امریکا کی پہلی سیاہ فام نائب صدر کمالا ہیریس نے جارج فلائیڈ کے اہلخانہ سے کہا کہ 'امریکا میں آج انصاف کا دن ہے اور تاریخ پیچھے مڑ کر اس لمحے کو دیکھے گی'۔
جارج فلائیڈ کا قتل اور امریکا میں احتجاج
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام شہری فارج فلائیڈ کی موت کے بعد امریکا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔
ان احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب ایک پولیس افسر کی ویڈیو وائرل ہوئی جسے ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی گردن پر گھٹنا رکھے دیکھا جا سکتا تھا۔
مزید پڑھیں: امریکا میں سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے ہونے والی جنگ کی داستان
سفید فام پولیس افسر سے جارج فلائیڈ زندگی کی بھیک مانگتے رہے لیکن وہ پولیس افسر 9 منٹ تک اس کی گردن پر ٹانگ رکھ کر بیٹھا رہا جس سے بالآخر اس کی موت واقع ہو گئی تھی۔
یہ ویڈیو چند گھنٹوں میں ہی دنیا بھر میں وائرل ہو گئی تھی جس کے بعد امریکا بھر میں مظاہرے، پرتشدد واقعات اور توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
سیاہ فام شہری کی موت کے بعد مینی ایپلس میں ہونے والے پرتشدد واقعات اور احتجاج کی گزشتہ 50 سال میں کوئی مثال نہیں ملتی جہاں آخری مرتبہ اس طرح کے حالات 1968 میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے قتل کے بعد پیدا ہوئے تھے۔