حکومت اور کالعدم تحریک لبیک کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور آج رات متوقع
وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری مذاکرات کے ابتدائی دو دور کی ناکامی کے بعد کالعدم تحریک لبیک پاکستان(ٹی ایل پی) کے کارکنوں سے مذاکرات کا تیسرا دور آج رات کریں گے۔
حکومت پنجاب اور کالعدم تنظیم کے کارکنوں کے درمیان بات چیت کا پہلا دور گزشتہ روز ہوا تھا جو بے نتیجہ ختم ہو گیا تھا جبکہ دوسرا راؤنڈر آج منعقد ہوا۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق کالعدم تحریک لبیک اور حکومت پنجاب کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور کچھ دیر پہلے اختتام پذیر ہوا جس میں گورنر پنجاب چوہدری سرور اور وزیر قانون راجہ بشارت نے حکومت کی نمائندگی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ بات چیت کا تیسرا دور رات کو 10 بجے ہو گا جس میں وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر مذہبی امور نور الحق قادری شریک ہوں گے۔
تحریک لبیک نے حکومت کے سامنے چار شرائط رکھی ہیں جس میں کہا گیا کہ فرانسیسی صدر ایمینوئل میکرون کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی حمایت کے بعد فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔
انہوں نے مزید مطالبات کیے کہ پارٹی کے امیر سعد رضوی کو رہا کیا جائے، پارٹی پر پابندی ختم کی جائے اور گرفتار کارکنوں کو رہا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف درج ایف آئی آر بھی ختم کی جائیں۔
اتوار کو پنجاب پولیس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ شرپسند عناصر نے پولیس اسٹیشن پر حملہ کر کے ڈی ایس پی کو اغوا کر لیا جس کے بعد انہوں نے اپنے دفاع میں کارروائی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ علی الصبح شرپسند عناصر نے نوان کوٹ پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا جہاں رینجرز اور پولیس الکار اندر پھنس کر رہ گئے اور ٹی ایل کے صدر دفتر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ڈی ایس پی نوان کوٹ کو اغوا کر کے اپنے مرکز لے گئے۔
ٹی ایل پی کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج
دوسری جانب پولیس نے ڈی ایس پی کے اغوا، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، فائرنگ کے ذریعے خوف و ہراس پھیلانے اور پولیس اسٹیشن پر پیٹرول اور ایسڈ بم پھینکنے کے الزام میں ٹی ایل پی کے 23 کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
ایف آئی آر میں شکایت گزار محمد وقاص نے کہا کہ وہ نوان کوٹ اسٹیڈیم میں موجود تھے جب کالعدم ٹی ایل پی کے حامی بڑی تعداد میں پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہو گئے اور نعرے بازی شروع کردی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان افراد نے پولیس اسٹیشن کے دروازے کو آگ لگا دی اور اسے اندر گرا دیا، انہوں نے پولیس اسٹیشن کے احاطے میں پتھراؤ شروع کردیا اور پھر پیٹرول اور ایسڈ بم پھینکے، اسلحے اور ڈنڈوں سے لیس 250 سے 300 ٹی ایل پی کارکن پولیس اسٹیشن میں داخل ہو گئے اور اندر موجود موٹر سائیکلوں کو نقصان پہنچا شروع کردیا جبکہ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کے دفتر میں توڑ پھوڑ بھی کی۔
ایف آئی آر کے مطابق جب ڈی ایس پی نے کارکنان سے بات کرنے کی کوشش کی تو ان کی بات سننے کے بجائے مظاہرین نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا، انہوں نے ڈی ایس پی اور دیگر ملازمین کو یرغمال بنا لیا اور فائرنگ کرتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔
ایف آئی آر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 365(اغوا)، 324(اقدام قتل)، 353(سرکاری ملازم پر تشدد)، 452، 427، 186، 147، 148، 149، 436، 291، 379 اور 109 کے تحت درج کی گئی ہے۔
ادھر خیبر پختونخوا حکومت کے محکمہ داخلہ نے کالعدم تنظیم تحریک لبیک کے اثاثے منجمد کرنے کے لیے محکمہ پولیس، سی ٹی ڈی اور تمام ڈپٹی کمشنرز کو فوری کارروائی کا حکم دیا ہے۔
اس سلسلے میں پشاور اور چارسدہ میں ٹی ایل پی کے دفاتر اور پارٹی سے منسلک ایک مدرسہ سیل کردیا گیا ہے۔
لاہور میں پولیس کارروائی
خیال رہے کہ 18 اپریل کی صبح کو پنجاب پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں نے لاہور کے یتیم خانہ چوک پر پُرتشدد مظاہرے کے دوران ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) کو 'بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنایا' اور ساتھ ہی 4 دیگر عہدیداروں کو بھی یرغمال بنا لیا۔
لاہور کے سی سی پی او کے ترجمان رانا عارف نے بتایا تھا کہ کالعم تنظیم کے مشتعل کارکنوں نے پولیس پر پیٹرول بم سے حملے بھی کیے تھے۔
یاد رہے کہ مذکورہ علاقے میں ٹی ایل پی کا احتجاج 12 اپریل سے جاری تھا۔
احتجاجی مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدیدجھڑپوں کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک اور 15 پولیس اہلکاروں سمیت سیکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔
بعدازاں پولیس کی جانب سے صبح میں شروع کیے گئے آپریشن کو روک دیا گیا تھا جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سیکیورٹی سخت جبکہ کراچی میں ریڈ الرٹ کردیا گیا تھا۔
جس کے بعد گزشتہ شب لاہور میں پیش آنے والی صورتحال پر مفتی منیب الرحمٰن کی سربراہی میں تنظیمات اہلسنت کا ایک خصوصی اجلاس ہوا تھا اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے آج 19 اپریل کو ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کی کال دی گئی تھی جس کی حمایت جمیعت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی نے بھی کی تھی۔
جس کے بعد علی الصبح شیخ رشید نے ایک ویڈیو بیان میں بتایا تھا کہ کالعدم ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ ٹی ایل پی نے اغوا کیے گئے پولیس اہلکاروں کو چھوڑ دیا ہے اور خود مسجد رحمتہ اللعالمین میں چلے گئے ہیں جبکہ پولیس بھی پیچھے ہٹ چکی ہے۔
ٹی ایل پی کے حالیہ احتجاج کی وجہ
ٹی ایل پی نے فرانس میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں پر رواں سال فروری میں فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے اور فرانسیسی اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کے مطالبے کے ساتھ احتجاج کیا تھا۔
حکومت نے 16 نومبر کو ٹی ایل پی کے ساتھ ایک سمجھوتہ کیا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے پارلیمان کو شامل کیا جائے گا اور جب 16 فروری کی ڈیڈ لائن آئی تو حکومت نے سمجھوتے پر عملدرآمد کے لیے مزید وقت مانگا۔
جس پر ٹی ایل پی نے مزید ڈھائی ماہ یعنی 20 اپریل تک اپنے احتجاج کو مؤخر کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔
اس حوالے سے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر اتوار کے روز سعد رضوی، مرحوم خادم حسین رضوی کے بیٹے ہیں، نے ایک ویڈیو پیغام میں ٹی ایل پی کارکنان کو کہا تھا کہ اگر حکومت ڈیڈ لائن تک مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہتی ہے تو احتجاج کے لیے تیار رہیں، جس کے باعث حکومت نے انہیں 12 اپریل کو گرفتار کرلیا تھا۔
ٹی ایل پی سربراہ کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے شروع ہوگئے تھے جنہوں نے بعض مقامات پر پر تشدد صورتحال اختیار کرلی تھی۔
جس کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد جاں بحق جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے اور سڑکوں کی بندش کے باعث لاکھوں مسافروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
بعدازاں حکومت پاکستان کی جانب سے ٹی ایل پی پر پابندی عائد کرنے اعلان کیا گیا تھا، اس دوران ملک کے مختلف احتجاجی مقامات کو کلیئر کروالیا گیا تھا تاہم لاہور کے یتیم خانہ چوک پر مظاہرین موجود تھے جہاں اتوار کی صبح سے حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔
یاد رہے کہ وزارت داخلہ نے 15 اپریل کو تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دیا تھا بعدازاں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے جماعت کی میڈیا کوریج پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔
تبصرے (1) بند ہیں