کالعدم تنظیم کا احتجاج: 4 ماہ سے منت سماجت سے معاملہ حل کرنے کی کوشش کی، نور الحق قادری
وفاقی وزیر برائے مذہبی نور الحق قادری نے لاہور میں کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور پولیس کے مابین چھڑپوں سے پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق کہا ہے کہ گزشتہ 4 مہینے سے مذاکرات اور منت سماجت سے معاملہ حل کرنے کی کوشش کی گئی، سانحہ یتیم خانہ چوک پر جتنا افسوس اپوزیشن اراکین اسمبلی کو ہے، اتنا ہی درد حکومتی بینچ پر موجود اراکین کو بھی ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس کے دوران نور الحق قادری مذکورہ معاملے پر پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ شیخ رشید نے مختصر انداز میں پالیسی بیان دے دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی جمہوری حکومت سانحہ یتیم خانہ چوک کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
مزید پڑھیں: لاہور میں پُرتشدد مظاہرے، ڈی ایس پی سمیت 5 پولیس افسران اغوا
وفاقی وزیر مذہبی امور نے بتایا کہ حکومت نے گزشتہ 4 ماہ کے دوران اس معاملے کو مذاکرات اور منت سماجت کے ذریعے حل کرنے کی بھرپور کوشش کی تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے معاملے کو بہتری کے ساتھ سلجھانے کے لیے بالواسطہ یا بلاواسطہ کوششیں کیں۔
انہوں نے بتایا کہ 'ہم نے مذاکرات کا راستہ کھلا رکھا ہوا تھا اور وہ یہ تھا کہ معاہدے کی رو سے اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لانے کے پابند ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: 'ٹی ایل پی کو ختم کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس داخل کریں گے'
نور الحق قادری نے کہا کہ 'آپ آجائیں اور اسپیکر قومی اسمبلی پارلیمانی کمیٹی نامزد کرے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجود ہو'۔
ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے سامنے وہ اپنا مؤقف پیش کریں اور وزارت خارجہ اور خارجی امور کے ماہرین اپنی رائے بھی دے دیں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم علمائے کرام کا اخترام کرتے ہیں لیکن خارجہ پالیسی کا تعین حکومت وقت اور پارلیمنٹ کا کام ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم نے انہیں کمیٹی کو قائل کرنے اور ڈرافٹ پیش کرنے کا کہا تھا'۔
نور الحق قادری نے کہا کہ 'کمیٹی جو فیصلہ کرے گی حکومت کو من و عن قبول ہوگا'۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ ہمارے ان کے ساتھ معاملات یہاں تک پہنچے تھے کہ اس دوران ایک ویڈیو کے ذریعے 20 اپریل کی کال دے دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے پر 'ٹی ایل پی' کے خلاف کارروائی کی، وزیر اعظم
انہوں نے کہا کہ 'اس لیے حکومت کی ذمہ داری تھی کہ شاہراؤں کو کھلا رکھا جائے اور معمولات زندگی متاثر نہ ہو'۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری پالیسی مذاکرات پر مبنی ہے، مفاہمت کے دو دور ہوچکے ہیں جبکہ آج (19 اپریل کو) تیسرا دور نماز تروایح کے بعد ہوگا۔
نور الحق قادری نے اُمید ظاہر کی کہ کوشش کریں گے کہ پارلیمنٹ اور عوام کی خواہش کے مطابق مذاکرات کے ذریعے معاملے کو حل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں ناموس رسالت ﷺ کو جتنا تحفظ وزیر اعظم عمران خان نے فراہم کیا اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت عمران خان کے حصے میں لکھی ہے۔
ہم ناموس رسالت ﷺ میں کالعدم تحریک لبیک سے پیچھے نہیں، شیخ رشید
وفاقی وزیر مذہبی امور سے قبل قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا تھا کہ ناموس رسالت ﷺ کے حوالے سے ہم کالعدم تحریک لبیک سے پیچھے نہیں ہیں اور ساری اسمبلی عاشق رسول ﷺ ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، آج صبح 3 بجے اجلاس ختم ہوا جبکہ کچھ دیر بعد دوبارہ اجلاس شروع ہوگا اور اچھی خبریں آئیں گی، بہتری کی خبریں ہوں گی۔
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ساری اسمبلی عاشق رسول ﷺ ہے اور اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان آج ساڑھے 4 یا 5 بجے پالیسی بیان دے رہے ہیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ 'میں یقین دلاتا ہوں ہم ناموس رسالت ﷺ پر کسی صورت میں بھی کالعدم تحریک لبیک سے پیچھے نہیں ہیں لیکن پاکستان کی حفاظت کے لیے، اس پاکستان کے دفاع اور سالمیت کے لیے آج وزیراعظم ایک پالیسی بیان دیں گے'۔
وزیراعظم کو ایوان سے خطاب کرنا چاہیے تھا، راجا پرویز اشرف
شیخ رشید کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما راجا پرویز اشرف نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا اس وقت ملک میں جو کیفیت ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جمعے کے روز (16 اپریل کو) جو اجلاس ہوا اس میں وزیر داخلہ عوامی نمائندوں کے سامنے پالیسی بیان دیتے، اس پر پھر اراکینِ اسمبلی اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔
راجا پرویز اشرف نے کہا کہ 'اس وقت مک میں حالت یہ ہے کہ میڈیا بالکل بلیک آؤٹ ہے اور سارا ملک افواہوں کی زد میں ہے کسی کو کچھ پتا نہیں کیا ہورہا ہے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'وزیر داخلہ نے جو بیان دیا ہے وہ آپ کے سامنے ہے، میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس ایوان کی توہین کرکے چلے گئے ہیں'۔
راجا پرویز اشرف نے کہا کہ 'وزیراعظم نے اگر آج ساڑھے 4 بجے تقریر کرنی تھی تو انہیں آج ایوان میں آکر تقریر کرنی چاہیے تھی، وہ اس ایوان کے ذمہ دار ہیں'۔
راجا پرویز اشرف نے کہا کہ 'اس وقت حالت یہ ہے کہ حکومت کی نااہلی، نا تجربہ کاری اور ناکامی کی وجہ سے بھائی، بھائی سے لڑرہا ہے اور ہم ملک کو ایک ایسی سمت میں لے کر جارہے ہیں جو بہت خوفناک ہے'۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ 'کیا ان کی عقل میں یہ بات نہیں آرہی، یہ یہاں اپنی سیاست کی باتیں کررہے ہیں، وزیر داخلہ کہتے ہیں نورالحق قادری بیان دیں گے، کمال ہے یہ ہم سب کا ملک ہے'۔
راجا پرویز اشرف نے کہا کہ 'ہم سب جو یہاں بیٹھے ہیں ہم سب غلامانِ رسول ﷺ ہیں، رسول ﷺ کے عقیدت مند یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، تو آپ (حکومت) کیا کررہے ہیں؟'
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'میرا خیال ہے کہ آپ کو سمجھ نہیں آرہا کہ یہ کتنا حساس معاملہ ہے، اس وقت جو کچھ ملک میں ہورہا ہے، وزیر داخلہ کے گھر کے سامنے جو ہورہا ہے آپ پتا کروائیں، اس ملک میں یہ کیا ہونے جارہا ہے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'اگر ہم سب غلامانِ رسول ﷺ ہیں، اگر حکومت اتنی بڑی دعویدار ہے، اگر آئے دن وزیر اور وزیراعظم ریاستِ مدینہ کی بات کرتے ہیں تو کیا ریاستِ مدینہ میں ایسے ہوتا ہے؟ کیا حکومت اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی ہے؟ کیا ان کا صبر ختم ہوگیا ہے'۔
راجا پرویز اشرف نے کہا کہ 'جب میں وزیراعظم تھا تو ڈنمارک میں گستاخانہ خاکے بنائے گئے تھے، توہینِ رسالت ﷺ کا ایک معاملہ آیا تھا، کیا ہم نے لوگوں کو گولیاں ماری تھیں؟ کیا ہم نے لاشیں گرائی تھیں؟ ہم نے اس وقت یوم عشق رسول ﷺ منایا تھا اور پوری دنیا پر واضح کردیا کہ رسول مقبول ﷺ کی عظمت سے بڑھ کر ہمارے نزدیک کوئی اور چیز اہم نہیں ہوسکتی'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'موجودہ حکومت جس سمت جارہی ہے وہ ملک کے لیے خطرناک ہے، آپ جو بو رہے ہیں وہ آپ کو بھی کاٹنا پڑے گا اور پورے ملک کو کاٹنا پڑے گا'۔
راجا پرویز اشرف نے کہا کہ 'حکومت وقت کا تو فریضہ ہوتا ہے کہ وہ دلوں کو جوڑے، وہ تو ایسے حالات پیدا ہی نہ ہونے دے، حکومت نے معاہدہ کیا تھا تو کیا ایوان میں وہ معاہدہ آیا'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'بطور حکومت آپ اپنی ذمہ داری میں ناکام ہوچکے ہیں، آپ اپنی ذمہ داری سے مت بھاگیں، آج وزیراعظم کو یہاں ہونا چاہیے تھا، یاد رکھیں آپ اس ملک کے ساتھ دشمنی کررہے ہیں، نفرتیں پھیلارہے ہیں'۔
راجا پرویز اشرف نے کہا کہ 'اسلامی ملک میں اس طرح بات کریں گے، حکومت مکمل طور پر ان حالات کی ذمہ دار ہے، میڈیا کہاں آزاد ہے، ان سے بڑی فاشسٹ حکومت کوئی نہیں آئی، یہ آگ سے کھیل رہے ہیں'۔
بعدازاں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے قومی اسمبلی کا اجلاس 22 اپریل، بروز جمعرات کو دوپہر 2 بجے تک ملتوی کردیا۔
لاہور میں پولیس کارروائی، پہیہ جام ہڑتال کا اعلان
خیال رہے کہ 18 اپریل کی صبح کو پنجاب پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں نے لاہور کے یتیم خانہ چوک پر پُرتشدد مظاہرے کے دوران ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) کو 'بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنایا' اور ساتھ ہی 4 دیگر عہدیداروں کو بھی یرغمال بنا لیا۔
لاہور کے سی سی پی او کے ترجمان رانا عارف نے بتایا تھا کہ کالعم تنظیم کے مشتعل کارکنوں نے پولیس پر پیٹرول بم سے حملے بھی کیے تھے۔
یاد رہے کہ مذکورہ علاقے میں ٹی ایل پی کا احتجاج 12 اپریل سے جاری تھا۔
احتجاجی مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدیدجھڑپوں کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک اور 15 پولیس اہلکاروں سمیت سیکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔
بعدازاں پولیس کی جانب سے صبح میں شروع کیے گئے آپریشن کو روک دیا گیا تھا جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سیکیورٹی سخت جبکہ کراچی میں ریڈ الرٹ کردیا گیا تھا۔
جس کے بعد گزشتہ شب لاہور میں پیش آنے والی صورتحال پر مفتی منیب الرحمٰن کی سربراہی میں تنظیمات اہلسنت کا ایک خصوصی اجلاس ہوا تھا اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے آج 19 اپریل کو ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کی کال دی گئی تھی جس کی حمایت جمیعت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی نے بھی کی تھی۔
جس کے بعد علی الصبح شیخ رشید نے ایک ویڈیو بیان میں بتایا تھا کہ کالعدم ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ ٹی ایل پی نے اغوا کیے گئے پولیس اہلکاروں کو چھوڑ دیا ہے اور خود مسجد رحمتہ اللعالمین میں چلے گئے ہیں جبکہ پولیس بھی پیچھے ہٹ چکی ہے۔
ٹی ایل پی کالعدم قرار
ٹی ایل پی نے فرانس میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں پر رواں سال فروری میں فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے اور فرانسیسی اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کے مطالبے کے ساتھ احتجاج کیا تھا۔
حکومت نے 16 نومبر کو ٹی ایل پی کے ساتھ ایک سمجھوتہ کیا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے پارلیمان کو شامل کیا جائے گا اور جب 16 فروری کی ڈیڈ لائن آئی تو حکومت نے سمجھوتے پر عملدرآمد کے لیے مزید وقت مانگا۔
جس پر ٹی ایل پی نے مزید ڈھائی ماہ یعنی 20 اپریل تک اپنے احتجاج کو مؤخر کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔
اس حوالے سے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر اتوار کے روز سعد رضوی، مرحوم خادم حسین رضوی کے بیٹے ہیں، نے ایک ویڈیو پیغام میں ٹی ایل پی کارکنان کو کہا تھا کہ اگر حکومت ڈیڈ لائن تک مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہتی ہے تو احتجاج کے لیے تیار رہیں، جس کے باعث حکومت نے انہیں 12 اپریل کو گرفتار کرلیا تھا۔
ٹی ایل پی سربراہ کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے شروع ہوگئے تھے جنہوں نے بعض مقامات پر پر تشدد صورتحال اختیار کرلی تھی۔
جس کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد جاں بحق جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے اور سڑکوں کی بندش کے باعث لاکھوں مسافروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
بعدازاں حکومت پاکستان کی جانب سے ٹی ایل پی پر پابندی عائد کرنے اعلان کیا گیا تھا، اس دوران ملک کے مختلف احتجاجی مقامات کو کلیئر کروالیا گیا تھا تاہم لاہور کے یتیم خانہ چوک پر مظاہرین موجود تھے جہاں اتوار کی صبح سے حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔
یاد رہے کہ وزارت داخلہ نے 15 اپریل کو تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دیا تھا بعدازاں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے جماعت کی میڈیا کوریج پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔