شُکر ہے طالبان ارطغرل نہیں دیکھتے
طالبان نے اعلان کیا ہے کہ جب تک امریکا کا انخلا مکمل نہیں ہوجاتا وہ افغانستان کے حوالے سے کسی کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔ 'امریکی انخلا 11 ستمبر کو مکمل ہوگا'، لیکن جو بائیڈن کی اس تقریر سے پہلے ہی طالبان ترکی میں ہونے والے انٹرا افغان ڈائیلاگ سے کھسک گئے تھے۔ بہانہ یہ کیا گیا تھا کہ ہماری تیاری نہیں ہے، ابھی تو ہم امریکی انخلا پروگرام میں تبدیلی کا جائزہ ہی لے رہے ہیں۔ یہ کانفرنس 16 اپریل کو ہونا تھی جو طالبان کے انکار کے بعد ملتوی ہوگئی تھی۔
اب افغان طالبان نے کہہ دیا ہے کہ ان کا امریکی انخلا تک ایسے کسی پروگرام میں شرکت کا ارادہ ہی نہیں ہے۔ اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ افغانستان کی اندرونی صورتحال کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ کابل میں قائم افغان حکومتی حلقوں میں ایک اضطراب ہے کیونکہ امریکی جا رہے ہیں، نیٹو فورسز بھی ان کے ہمراہ رخصت ہوں گی جبکہ افغان فورسز کا ٹریننگ پروگرام بھی بند ہونے جا رہا ہے۔
اشرف غنی جو مختلف فارمولے شراکتِ اقتدار کے لیے دے رہے تھے، سب دھول مٹی ہوگئے ہیں۔ خارجہ پالیسی میں افغان امور کے ماہر مائیکل کوگل مین نے ایک بڑا ہی دلچسپ سوال پوچھا کہ افغان طالبان اب شراکتِ اقتدار کے لیے بات چیت کریں گے؟ یا پھر مکمل اقتدار کے لیے قبضہ؟
اس سوال میں ہی فیصلہ کُن جواب موجود ہے۔ امریکا نے جس انداز میں انخلا کا اعلان کیا ہے اس کا صاف سیدھا مطلب یہ ہے کہ ہم جا رہے ہیں تم آجاؤ اور دوحہ معاہدے میں جو ضمانتیں دی ہیں ان پر عمل کرو۔ افغانستان میں جو کرنا ہے وہ تم جانو اور افغان جانیں، ہماری بس ہے۔ وہی روزہ جانے اور خان جانے یا جٹ جانے اور بجو جانے والی دیسی مثال ادھر فِٹ ہوتی۔
ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ ایک اہم چینی اخبار ہے۔ اس میں حیران کُن رپورٹ چھپی ہے کہ چین افغانستان میں اپنی فوج بھیج سکتا ہے۔ افغانستان کو عالمی طاقتوں کا قبرستان کہا جاتا ہے، یہ بات کیا چینیوں کو نہیں معلوم؟ اس کے باوجود ان کے میڈیا میں ایسی بات کا چھپنا ایک بڑی بات ہے۔
ایشیا ٹائم ہانگ کانگ سے چھپتا ہے۔ 13 اپریل کو ایک رپورٹ اس سرخی کے ساتھ چھپتی ہے کہ روس کو اچانک پاکستان کی صورت میں اتحادی کیوں چاہیے؟ اس رپورٹ میں چینی اضطراب کا ایک جواب موجود ہے، اور وہ یہ کہ چینی ڈپلومیٹ سرکاری بریفنگ میں کہتے پائے جاتے ہیں کہ امریکا چین کے مسلمان صوبے سنکیانگ میں مداخلت کر رہا ہے، اس لیے وہ افغانستان میں اپنی فوجی اور انٹیلی جنس موجودگی کو استعمال کر رہا ہے۔
طالبان نے دوحہ معاہدے میں اپنی سرزمین کسی تیسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی ضمانت دی ہے۔ وہ کئی سال سے مسلسل اعلان کر رہے ہیں کہ وہ افغانستان سے باہر نہیں دیکھتے۔ ان کے جو عزائم ہیں اپنے ملک کے لیے ہیں اور وہ اس کی حدود کے اندر ہی رہنا چاہتے ہیں اور اپنی سوچ فکر ایکسپورٹ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ طالبان تو یہ کہہ رہے ہیں البتہ القاعدہ اور داعش ایسا نہیں کہتے۔
داعش افغانستان میں موجود ہے۔ اس سے روس بھی خطرہ محسوس کرتا ہے۔ اسی لیے وہ پاکستان کی صورت میں ایک اتحادی دیکھتا ہے، جس کا مفاد مشترکہ ہے۔ چینی، ایرانی، وسطی ایشیا کے ممالک سب ہی داعش کے خلاف ہیں۔
امریکی خود تو افغانستان سے جارہے ہیں لیکن اپنی جگہ ترکی کو افغانستان کے معاملے میں بہت خاموشی اور بڑے طریقے سے آگے کیا ہے۔ ترکی کا افغانستان سے ایک لنک بنتا بھی ہے، مثلاً افغانستان کے ترکمان اور ازبک کا ترکی النسل ہونا اور رشید دوستم کا ترکی کے ساتھ اچھا تعلق ہونا پھر ترکی کا ان کی حمایت کرنا۔ ترکی بظاہر افغانستان میں ایک مؤثر کھلاڑی ثابت ہوسکتا ہے جو فوجی طاقت بھی رکھتا ہے۔ اس کے افغانستان میں مضبوط روابط بھی ہیں۔ امن مذاکرات کے لیے ایک فیصلہ کُن فریق ثابت ہوسکتا ہے اور ایک اچھا ضامن بھی بن سکتا ہے۔
یہاں تک تو سب کچھ ٹھیک ہے۔ چین کے مسلمان صوبے سنکیانگ کی اکثریتی آبادی بھی ترکی النسل ہے۔ ترکی اعلانیہ کہتا ہے کہ چین کے ساتھ اس کے تعلقات کا انحصار سنکیانگ کے ایغور باشندوں کے ساتھ چینی سلوک پر ہے۔ لیکن ترکی نے اب تک کہیں کوئی صلح نہیں کرائی، جہاں کسی تنازعے میں شامل ہوا ہے تو اس میں لڑائی کو بڑھایا ہی ہے۔
ہمارے ہمسائے افغانستان میں ہمارے 2 دوست ملک زور آزمائی کے لیے تیار ہو رہے ہیں جس کے باعث ہمارے لیے مشکلات اُمڈ کر آسکتی ہیں۔ ایسے میں طالبان نے ترک کانفرنس میں شرکت سے گریز کیا ہے اور آئندہ امریکی انخلا ہونے تک کسی بھی مذاکراتی عمل میں شامل ہونے سے انکار کردیا ہے، یہ انکار ہماری اور خود طالبان کی اپنی بہترین مدد ہے۔
ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ اس انکار میں ہماری مشاورت کا بھی کوئی دخل ہوگا۔ ہم نے اپنے حصے کے کوئی سبق سیکھے ہوں گے۔ پہلے ہم گوادر پر چینی اور سعودی آمنے سامنے کرا چکے ہیں، پھر ملائیشیا کانفرنس میں ترکی سعودی ملاکھڑا کرا دینے لگے تھے۔ اب افغانستان میں ترکی اور چینی میچ کرانے کی امریکی شرارت سامنے ہے، وہ بھی ایسے وقت میں جب امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین نے اہم بیان دیا ہے۔ سینیٹر جیک ریڈ نے کہا ہے کہ طالبان کی افغانستان میں کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہم پاکستان میں ان کے محفوظ ٹھکانے ختم نہیں کرا سکے۔
شکر ہے طالبان کے پاس ارطغرل دیکھنے کا وقت نہیں تھا۔ اگر ترکی کا نام سنتے وہ بھی ڈھیر ہوجاتے تو ہم اک نئے رولے میں پھنس جاتے۔ ہمیں اپنے گھر میں ویسے ہی کئی مسائل کا سامنا ہے کہ اس نئی ابھرتی صورتحال کو دیکھنے کی شاید ہی کسی کو فرصت ہو۔
تبصرے (1) بند ہیں