• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

تحریری حکم نامہ جاری ہونے تک شہباز شریف کی رہائی میں تاخیر

شائع April 17, 2021
لاہور ہائی کورٹ نے 2 روز قبل مختصر فیصلے میں شہباز شریف کی ضمانت منظور کی تھی تاہم بینچ نے اب تک اپنا تحریری حکم جاری نہیں کیا ہے — فائل فوٹو:اے ایف پی
لاہور ہائی کورٹ نے 2 روز قبل مختصر فیصلے میں شہباز شریف کی ضمانت منظور کی تھی تاہم بینچ نے اب تک اپنا تحریری حکم جاری نہیں کیا ہے — فائل فوٹو:اے ایف پی

لاہور: دو روز قبل لاہور ہائی کورٹ کے بینچ سے ضمانت پانے والے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی منی لانڈرنگ ریفرنس میں جیل سے رہائی میں مزید تاخیر ہوسکتی ہے کیونکہ عدالت عالیہ نے اب تک اپنا تحریری حکم جاری نہیں کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 14 اپریل کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے پراسیکیوٹر اور سابق وزیر اعلیٰ کے وکیل کے حتمی دلائل سننے کے بعد جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس اسجد جاوید گورال پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے فریقین کو بتایا تھا کہ انہیں فیصلے کے بارے میں جلد آگاہ کردیا جائے گا۔

تقریباً 15 منٹ کے بعد عدالت کے عملے کا ایکرکن ججز کے کمرے سے باہر آیا اور فریقین کو بتایا کہ درخواست ضمانت 50 لاکھ روپے کے مچلکے کے عوض قبول کرلی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت منظور

ایک عہدیدار نے بتایا کہ بینچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس محمد سرفراز ڈوگر نے ایک صفحے کے مختصر آرڈر پر دستخط کیے تھے اور اسے دستخط کے لیے جسٹس اسجد جاوید گورال کو بھجوا دیا تھا جو تاحال زیر التوا ہے۔

غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ جسٹس اسجد جاوید گورال نے ضمانت منظور کرنے کے احکامات سے اتفاق نہیں کیا اور اپنا فیصلہ لکھنے کے لیے فائل اپنے پاس رکھ لی۔

جج کے عملے نے صحافیوں کو بتایا کہ حکم میں کسی قسم کی تبدیلی کے بارے میں ان کے پاس کوئی ہدایت نہیں ہے۔

تاہم لاہور ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر شہباز شریف کی درخواست کو بطور 'منظور' لکھا گیا ہے۔

شہباز شریف کے وکیل ایڈووکیٹ اعظم نذیر تارڑ نے ڈان کو بتایا کہ اگر ضمانت دینے کے حکم میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے تو انہیں عدالت کی طرف سے آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب نے شہباز شریف کے خلاف ایک اور کیس کی تحقیقات شروع کردیں

انہوں نے کہا کہ عدالت کے عملے نے یہ تاثر نہیں دیا کہ مختصر حکم کی بجائے تفصیلی فیصلہ جاری کیا جائے گا، اگر اعلان کے بعد بینچ کے رکن نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا تو یہ بے مثال ہوگا۔

جمعہ کے روز دونوں ججز نے سنگل بینچ کے طور پر کام کرنے کے لیے اپنی عدالتوں میں شرکت کی۔

چیف جسٹس محمد قاسم خان کی جانب سے 19 اپریل کو شروع ہونے والے ہفتے کے لیے ججز کے نئے روسٹر کے مطابق جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اسجد جاوید گورال کو بالترتیب ملتان اور بہاولپور بینچز میں تبادلہ کیا گیا ہے۔

پرنسپل سیٹ پر نیب سے متعلق مقدمات کی سماعت کے لیے جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل نیا ڈویژن بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔

اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر وکیل ظفر اقبال کالانوری نے کہا کہ اگر ڈویژن بینچ ضمانت کی درخواست پر الگ الگ فیصلہ دیتا ہے تو معاملہ ریفری جج کو بھیجا جائے گا جو دونوں متضاد فیصلوں کو دیکھنے کے بعد رائے دیتا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ جب قانونی طور پر کوئی حکم موجود نہ ہو، نہ ہی متفقہ اور نہ ہی کوئی اختلاف رائے رکھنے والا تو کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت کی درخواست پر شہباز شریف کے وکیل کے دلائل مکمل

شہباز شریف کو 28 ستمبر 2020 کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری میں توسیع منظور نہ کرنے پر منی لانڈرنگ ریفرنس میں گرفتار کیا گیا تھا جس نے ابتدائی طور پر 3 جون کو قبل از گرفتاری ضمانت منظور کی تھی۔

وہ تین ہفتوں سے زیادہ عرصے تک نیب کی تحویل میں رہے جس کے بعد ٹرائل کورٹ نے انہیں 20 اکتوبر کو عدالتی تحویل میں بھیج دیا تھا۔

اس سے قبل نیب نے شہباز شریف کو 5 اکتوبر 2018 کو آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم اور بعد ازاں رمضان شوگر ملز کیس میں گرفتار کیا تھا۔

دونوں ہی کیسز میں لاہور ہائی کورٹ نے انہیں 17 فروری 2019 کو ضمانت پر رہا کردیا تھا۔

ترجمان لاہور ہائی کورٹ کے جاری کردہ ایک بیان میں میڈیا کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ ان کی رہائی سے قبل اس حکم کے بارے میں قیاس آرائیوں سے گریز کرے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ عدالتی فیصلوں پر محتاط طور پر بحث کرنے کی ضرورت ہے، ججز کے دستخط ہونے سے قبل عدالت کے کسی حکم کے بارے میں غیر ضروری قیاس آرائیاں عوام میں پریشانی کا باعث بنی ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ججز کے دستخط کے بعد ضمانت نامے کا حکم میڈیا کو جاری کیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024