بابر اعظم کی عظمت اور ناقدین کی گراوٹ کی انتہا
سب سے پہلے تو ایک سیاسی نعرے کو ذرا کرکٹ میں لانے دیں ‘اج تے ہوگئی بابر بابر!’
لڑکے نے تو دورہ جنوبی افریقہ میں کمال ہی کردیا ہے۔ بابر اعظم جیسی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، وہ ان کے ایک، ایک ناقد کو بھرپور جواب ہے۔
لیکن ناقدین بھی بھلا کبھی خاموش ہوئے ہیں؟ پاکستان میں تو ایک طبقہ ہمیشہ ایسا موجود رہتا ہے، کھیل کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی، کہ جس کا کام ہر وقت تنقید کرنا ہوتا ہے یا پھر وہ اپنے تیر و نشتر تیز کیے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے کہ جہاں موقع ملے، وار کردیا جائے۔
گلی کے نکڑ پر، پان کے کھوکھے پر، تھڑے پر بیٹھے، اوطاقوں اور چوپالوں میں محفلیں جمائے عوام ہی نہیں بلکہ اچھے خاصے بڑے نام بھی ایسی ہی ‘ناقدانہ’ سوچ رکھتے ہیں۔ بات چاہے سیاست کی ہو یا کھیل کی، ان کا فارمولا سادہ سا ہوتا ہے، کسی ایک خرابی کو پکڑنا ہے اور اگلی پچھلی تمام خدمات کو صفر سے ضرب دے کر نتیجہ نکال لینا ہے۔
ماضی قریب میں اس کی بڑی مثال سابق کپتان مصباح الحق کی تھی۔ دنیا میں وہ کون سی ‘بُرائی’ تھی جو مصباح میں نہیں تھی۔ ‘سُست کھیلتا ہے’، ‘رویّہ ٹھیک نہیں’، ‘قیادت کا اہل نہیں’، ‘جدید کرکٹ کا کچھ نہیں پتا’، ‘بولنے کا انداز ٹھیک نہیں’، ‘خوبصورت نہیں ہے’، ‘بال لمبے نہیں ہیں’، ‘شیمپو کے اشتہار میں نہیں آتا’ وغیرہ وغیرہ۔
لیکن عین اس وقت جب ملک میں ایسی لغو تنقید ہو رہی تھی، پاکستان سے باہر ایک دنیا مصباح کی معترف تھی اور انہیں ایک ٹوٹی پھوٹی، شکست خوردہ ٹیم کو ایک مرتبہ پھر جیت کی راہ پر گامزن کرنے والا کپتان سمجھتی تھی۔ ایک ایسی ٹیم کا قائد جسے اپنے میدانوں پر کھیلنے تک کا موقع نہیں مل رہا تھا اور وہ دنیا کی بہترین ٹیموں کو ان کے ملکوں میں شکست دے کر آ رہی تھی لیکن پھر بھی مصباح کے دامن میں صرف تنقید ہی آتی تھی۔
مزید پیچھے جائیں تو یہ داستان مزید طول پکڑ لیتی ہے۔ شاہد آفریدی کے دور میں ‘کپتان تو جی بس یونس خان تھا’ جیسے جملے۔ یونس کے عہد میں انہیں ‘غیر سنجیدہ’ قرار دیتے ہوئے انضمام الحق کے قائدانہ انداز کی تعریفیں۔ لیکن یہی لوگ انضمام کے عہد میں معین خان کے ‘جارحانہ انداز’ کو یاد کرتے ہوئے ‘انضی’ کو زد پر رکھتے تھے۔ ایسے ہی ‘ناقدین’ کے لیے وقار یونس کے زمانے میں وسیم اکرم بہتر کپتان تھے، وسیم اکرم کے دور میں ‘اسٹریٹ فائٹر’ جاوید میانداد اور ان کے دور میں عمران خان ‘عظیم ترین کپتان’ تھے۔ کھینچتے رہیں، یہ کہانی چلتی ہی رہے گی۔
بس تو بابر اعظم کو بھی اسی ‘گھن چکر’ کا سامنا ہے۔ قیادت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہے تو انہیں بھی گاہے بہ گاہے ایسی ہی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور آئندہ بھی کرنا ہوگا، جب تک کہ وہ دنیائے کرکٹ کو خیرباد نہ کہہ جائیں۔
اس لیے بابر کو کراچی کی بسوں کے پیچھے لکھے ایک سنہرے اور عظیم اصول ‘پاس کر ورنہ ‘‘برداشت’’ کر’ پر عمل کرنا پڑے گا، بالکل اپنے ہیڈ کوچ مصباح الحق کی طرح۔
ویسے تنقید کو خاطر میں نہ لانا اب ایک بہت مشکل کام ہوچکا ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے کہ جس میں ہم ‘جتنے منہ، اتنی باتیں’ جیسے محاورے کو عملی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ یعنی یہ کہنا غلط نہیں کہ بابر اعظم کا اصل امتحان تو میدان کے اندر ہے لیکن کڑا امتحان ‘آف دی فیلڈ’ ہوگا۔ انہیں کبھی شکست کے ذمہ دار ہونے کے طعنے سننے پڑیں گے، تو کبھی کم اسٹرائیک ریٹ کے شکوے، ‘فلاں باؤلر کو اوور دینا چاہیے تھا’ سے لے کر ‘اسے پہلے بیٹنگ کے لیے بھیجنا تھا’ جیسے ‘مشورے’ بھی سہنے پڑیں گے۔
بہرحال، ایسے تمام نام نہاد ناقدین کے لیے دورہ جنوبی افریقہ کو ہضم کرنا بہت مشکل ہے۔ بابر اعظم نے یہاں ایک ایسا اعزاز حاصل کیا ہے جو پاکستان کی تاریخ میں بہت کم بلے بازوں کو ملا ہے۔ وہ ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کی پاکستانی تاریخ میں محض چوتھے بیٹسمین بنے ہیں کہ جنہوں نے رینکنگ یعنی درجہ بندی میں پہلا مقام حاصل کیا ہے۔
ان سے پہلے ظہیر عباس، جاوید میانداد اور محمد یوسف ہی ایسے پاکستانی بلے باز تھے کہ جنہیں یہ ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ میں پہلا نمبر ملا ہے۔ ون ڈے انٹرنیشنل میں رینکنگ کا باضابطہ آغاز 1998ء میں ہوا تھا، یعنی باضابطہ طور پر تو صرف محمد یوسف ہی تھے جو 2003ء میں ورلڈ نمبر وَن بیٹسمین بنے تھے۔ باقی کو حساب کتاب کے ذریعے بعد میں اپنے زمانے کا نمبر ایک بلے باز قرار دیا گیا۔
بابر اعظم کے اس کارنامے کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے ون ڈے میں بھارتی کپتان ویرات کوہلی کی طویل بادشاہت کا خاتمہ کیا ہے جو ساڑھے 3 سال سے جاری تھی۔ ایک ایسے بیٹسمین کہ جن کے عظیم ہونے میں کسی کو شبہ نہیں۔ دنیا کا کوئی بلے باز 41 مہینوں تک ویرات کو اس مقام سے نیچے نہیں اتار پایا اور ایسا کرنے کے لیے بھی مستقل اور بھرپور کارکردگی کی ضرورت تھی جو بابر نے خوب دکھائی ہے۔
گزشتہ 2 سال میں بابر نے 21 ون ڈے میچوں میں تقریباً 71 کی اوسط اور 97 سے زیادہ کے اسٹرائیک ریٹ سے 1346 رنز بنائے ہیں، جن میں 5 سنچریاں اور 7 نصف سنچریاں شامل تھیں۔ جنوبی افریقہ میں انہوں نے پہلے ون ڈے میں 103 اور آخری میں 94 رنز بناکر سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ انہوں نے اس ‘بالی عمریا’ میں ہی بہت کچھ حاصل کرلیا ہے لیکن ہم ریکارڈز کی پٹاری نہیں کھولنا چاہتے کیونکہ اس کا کھلنا اتنا ضروری نہیں جتنا کہ ہمارے ‘ناقدین’ کا اپنے دماغوں کو کھولنا ضروری ہے۔
شاید ان کی نظر میں بابر تب عظیم ترین بلے باز کہلائیں گے جب وہ بھارت کے خلاف ورلڈ کپ کے کسی ناک آؤٹ مقابلے میں آخری 6 گیندوں پر 6 چھکے لگاکر پاکستان کو میچ جتوائیں گے، کیونکہ جو شخص آپ کی ‘دو ٹکے کی انا’ کو تسکین پہنچانے کا کام نہ کر پائے، وہ اس قابل ٹھہرتا ہے کہ آپ اس پر کڑی تنقید کریں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اتنے کارنامے انجام دینے کے بعد بھی مصباح کا ‘جرم’ معاف نہیں کیا جاسکا، 2007ء کا ورلڈ ٹی20 فائنل اور ورلڈ کپ 2011ء کا فائنل۔
تبصرے (3) بند ہیں