برطانیہ میں دریافت کورونا کی قسم زیادہ سنگین بیماری کا باعث نہیں بنتی، تحقیق
کورونا وائرس کی برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم بی 1.1.7 سے متاثر ہونے والے افراد میں بیماری کی شدت دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ سنگین نہیں ہوتی۔
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
طبی جریدے دی لانسیٹ انفیکشیز ڈیزیز تحقیق میں ہسپتالوں میں زیرعلاج رہنے والے کووڈ 19 کے مریضوں کے ایک گروپ کا جائزہ لیا گیا تھا۔
ماہرین نے کہا کہ ہمارا ڈیٹا حقیقی دنیا پر مبنی ہے جس سے ابتدائی یقین دہانی ہوتی ہے کہ بی 117 سے متاثر مریضوں میں بیماری کی شدت دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ سنگین نہیں ہوتی۔
تحقیق میں 496 مریضوں کا کا جائزہ لیا گیا تھا جو نومبر اور دسمبر 2020 کے دوران برطانیہ کے ہسپتالوں میں کووڈ 19 کے باعث زیرعلاج رہے تھے۔
ان میں سے 198 مریضوں میں بی 117 قسم کی تشخیص ہوئی تھی، جن میں سے 72 میں بیماری کی شدت سنگین ہوئی جبکہ گروپ کے دیگر 141 افراد (جن میں کورونا کی دیگر اقسام کو دریافت کیا گیا تھا) میں سے 53 مریضوں کو بیماری کی سنگین شدت کا سامنا ہوا۔
بی 117 سے متاثر 31 جبکہ دیگر اقسام سے متاثر 24 مریض ہلاک ہوئے۔
جن افراد میں بیماری کی شدت زیادہ ہوئی یا ہلاک ہوئے، وہ معمر تھے یا پہلے سے کسی اور بیماری کا شکار تھے۔
اگرچہ محققین بی 117 کے مریضوں میں بیماری کی سنگین شدت یا موت کے نمایاں خطرے کو دریافت نہیں کرسکے تاہم ان میں وائرل لوڈ کی سطح زیادہ تھی، جس سے وائرس کے زیادہ پھیلاؤ کا عندیہ ملتا ہے۔
تحقیق کے نتائج سے سابقہ تحقیق کو توقع ملتی ہے کہ برطانیہ میں دریافت یہ قسم زیادہ متعدی ہے اور احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے سے کیسز کی تعداد ممیں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں صوبہ پنجاب میں بھی کہا جارہا ہے کہ برطانیہ میں دریافت ہونے والی یہ قسم پھیل رہی ہے اور ممکنہ طور پر اسی وجہ سے وہاں حالیہ ہفتوں میں کیسز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
اس نئی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ بی 117 سے متاثر گروپ میں مجموعی طور پر کم عمر افراد زیادہ تھے جن کو زیادہ طبی مسائل کا سامنا نہیں تھا۔
بی 117 اب امریکا میں کورونا وائرس کی سب سے عام قسم بھی بن چکی ہے اور وہاں 27 فیصد کیسز اس کا نتیجہ ہے۔
دی لانسیٹ پبلک ہیلتھ میں شائع ایک اور تحقیق میں دریافت کیا کہ کووڈ 19 ویکسینز ممکنہ طور پر بی 117 کے خلاف مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔
تحقیق میں اس نئی قسم سے کورونا سے دوبارہ متاثر ہونے کی شرح میں بھی کوئی اضافہ دریافت نہیں کیا گیا۔
تحقیق کے دوران ستمبر سے دسمبر 2020 کے دوران کووڈ سے متاثر ہونے والے 37 ہزار کے قریب افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جن میں سے 249 میں دوبارہ اس بیماری کی تشخیص ہوئی۔
محققین نے بتایا کہ بی 117 سے ری انفیکشن کی شرح میں نمایاں اضافے کے شواہد نہیں مل سکے۔
انہوں نے کہا کہ ممکنہ طور پر پہلی بار بیمار ہونے پر جسم میں اتنی مدافعت پیدا ہوجاتی ہے جو بی 117 سے دوبارہ بیمار ہونے کے خلاف تحفظ فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ موجودہ کووڈ ویکسینز بی 117 کے خلاف بھی مؤثر ہیں۔