جسٹس فائز عیسیٰ کیس کو براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد
سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس سے متعلق فیصلے کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظر ثانی اپیل کی سماعت براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد کردی۔
خیال رہے سپریم کورٹ نے 18 مارچ کو اس درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے آج سناتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی بینچ نے 4 کے مقابلے 6 ججز کے اکثریتی فیصلے کی بنیاد پر درخواست مسترد کی۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں اس 10 رکنی بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس امین الدین خان شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:نظرثانی کیس: سپریم کورٹ نے براہِ راست کوریج کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا
مختصر فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے پڑھ کر سنایا جس میں سپریم کورٹ نے کہا کہ معلومات تک رسائی عوام کا بنیادی حق ہے لیکن معلومات تک کس انداز میں رسائی دی جاسکتی ہے یہ انتظامی معاملہ ہے۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس سید منصور علی نے کہا کہ آئین کی دفعہ 19-اے ریاستی اداروں پر شہریوں کے بنیادی حقوق کے حصول کو یقینی بنانے اور عوامی اہمیت کے معاملات میں معلومات تک رسائی کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ذمہ داری عائد کرتی ہے۔
نوٹ میں لکھا گیا کہ آئین کی دفعہ 184 (3) کے تحت کیسز بشمول نظرِ ثانی درخواستیں اور دیگر معاملات عوامی اہمیت کے حامل ہیں اور عوام کو عدالت میں سنے جانے والے ان کیسز کی کارروائی دیکھنے اور جاننے کا حق ہے۔
ساتھ ہی اختلافی نوٹ میں براہ راست نشریات کی استدعا منظور کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ عوامی مفاد کا کیس ہے، سپریم کورٹ ویب سائٹ پر براہ راست دکھایا جائے اور عدالتی کارروائی کی آڈیو ریکارڈنگ ویب سائٹ پر ڈالی جائے۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیصلہ تحریر کرنے اور اس سے اختلاف کرنے والے ججز کے نام جاننا چاہتا ہوں۔
جس پر بینچ کے سربراہ عمر عطا بندیال نے کہا کہ فیصلہ پڑھیں گے تو آپ کو ناموں کا اندازہ ہوجائے گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست گزار جج کو کہا کہ نظر ثانی درخواستوں پر دلائل دیں جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں ذہنی طور پر دلائل کے لیے تیار نہیں ہوں۔
جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کہ کیا آپ تفصیلی فیصلے کے بعد نظر ثانی درخواست پر دلائل دیں گے؟ جس پر درخواست گزار جج نے کہا کہ میرا انحصار عدالت پر ہے، اگر کہیں گے تو دلائل شروع کر دوں گا۔
مزید پڑھیں:عدلیہ کے خلاف فِفتھ جنریشن وار شروع کردی گئی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے کہا کہ ایک حکومتی عہدیدار خاتون نے توہین عدالت کی، فواد چوہدری نے عدالت کو اسکینڈلائیز کیا، کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
سرینا عیسیٰ نے مزید کہا کہ یوسف رضا گیلانی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو توہین عدالت کی سزائیں سنائی گئیں لیکن رجسٹرار نے فواد چوہدری کے خلاف توہین عدالت کیس کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سمجھ نہیں آئی توہین عدالت کی درخواستیں سماعت کے لیے کیوں مقرر نہیں ہوئیں یہ عدالت کی عزت و تکریم کا معاملہ ہے۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ ذہنی طور پر دلائل کے لیے تیار ہو جائیں، توہین عدالت کی درخواستیں بھی سماعت کے لیے مقرر ہو جائیں گی۔
بعدازاں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بینچ نے نظر ثانی اپیل کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دلائل دیں گے۔
معاملے کا پس منظر
خیال رہے کہ 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے 7 ججز کے اپنے اکثریتی مختصر حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا۔
عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی بینچ میں سے انہیں 7 اراکین نے مختصر حکم نامے میں پیرا گراف 3 سے 11 کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سامنے دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ان کے اہل خانہ سے ان کی جائیدادوں سے متعلق وضاحت طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرانے کا کہا تھا۔
عدالتی بینچ میں شامل جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا لیکن انہوں نے اکثریتی فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس پر نظرثانی کیلئے 10 رکنی بینچ تشکیل
بعد ازاں عدالت عظمیٰ کے اس مختصر فیصلے کے پیراگرافس 3 سے 11 کو دوبارہ دیکھنے کے لیے 8 نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھی۔
یہ درخواستیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر، پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین، ایڈووکیٹ عابد حسن منٹو اور پاکستان بار کونسل نے دائر کی تھیں۔
اپنی نظرثانی درخواستوں میں درخواست گزاروں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ 19 جون کے مختصر فیصلے میں پیراگرافس 3 سے 11 کی ہدایات/ آبزرویشنز یا مواد غیر ضروری، ضرورت سے زیادہ، متضاد اور غیرقانونی ہے اور یہ حذف کرنے کے قابل ہے چونکہ اس سے ریکارڈ میں ’غلطی‘ اور ’ایرر‘ ہوا ہے لہٰذا اس پر نظرثانی کی جائے اور اسے حذف کیا جائے۔
بعد ازاں اس کیس کا 23 اکتوبر کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جو 174 صفحات پر مشتمل تھا، جس میں سپرم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت صدر مملکت عارف علوی غور شدہ رائے نہیں بنا پائے لہٰذا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’مختلف نقائص‘ موجود تھے۔
تفصیلی فیصلے کے بعد اکتوبر میں سپریم کورٹ کو 4 ترمیم شدہ درخواستیں موصول ہوئی تھی جن میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق اکثریتی فیصلے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔
اس معاملے پر عدالت کی جانب سے نظرثانی کے لیے پہلے ایک 6 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا تاہم درخواست گزروں نے 6 رکنی نظرثانی بینچ کی تشکیل کو چیلنج کردیا تھا اور یہ مؤقف اپنایا گیا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف کیس میں اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے تینوں ججز کو نظرثانی بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟
5 دسمبر کو جسٹس قاضی فائز عیسی نے صدارتی ریفرنس کے خلاف آئینی درخواست پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی اضافی درخواست داخل کی تھی اور کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے تعصب سے متعلق میری درخواست پر سماعت ہی نہیں کی۔
ساتھ ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نظر ثانی درخواست میں استدعا کی تھی کہ سماعت ٹی وی پر براہ راست نشر کرنے کا حکم دیا جائے۔
جس کے بعد بینچ تشکیل کے معاملے پر سماعت ہوئی تھیں اور عدالت نے 10 دسمبر 2020 کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا کہ آیا یہی بینچ یا ایک لارجر بینچ جسٹس عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستوں کا تعین کرے گا۔
بالآخر 22 فروری 2021 کو جاری کردہ 28 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مذکورہ معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا تھا کہ وہ بینچ کی تشکیل سے متعلق فیصلہ کریں اور وہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دے سکتے ہیں۔
بعد ازاں 23 فروری 2021 کو چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک 10 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس میں ان تینوں ججز کو بھی شامل کرلیا گیا تھا جنہوں نے مرکزی فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا تھا۔
مذکورہ بینچ نے نظرِ ثانی کیس کی سماعت براہِ راست نشر کرنے کی اپیل کی بھی سماعت کی جس کے دلائل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خود دیے تھے۔
مذکورہ درخواست پر 18 مارچ کو فیصلہ محفوظ کیا گیا جسے 13 اپریل کو سناتے ہوئے درخواست مسترد کردی گئی۔