وزیر اعظم کی پاکستان فٹبال فیڈریشن کے مسائل بات چیت سے حل کرنے کی ہدایت
وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان فٹبال فیڈریشن (پی ایف ایف) پر قبضے کی مذمت کرتے ہوئے بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ڈان نیوز کے پروگرام ری پلے میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ فہمیدہ مرزا نے کہا کہ پاکستان فٹبال فیڈریشن کے ساتھ پیش آنے والے معاملات کی مذمت کرتی ہوں کیونکہ کرکٹ کے بعد فٹبال پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول کھیل ہے اور مجھے افسوس ہے کہ چند لوگوں کی وجہ سے ہم پر پابندی لگی۔
یہ بھی پڑھیں: فیفا نے پاکستان فٹ بال فیڈریشن کی رکنیت معطل کردی
انہوں نے کہا کہ میں نے یہی تجویز دی تھی کہ شفاف انتخابات کروائیں اور جو بھی الیکشن کے بعد منتخب ہوتا ہم اس کو تسلیم کرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم فیڈریشن پر قبضے کو کسی صورت تسلیم نہیں کرتے اور پاکستان میں فٹبال چند لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں فٹبال کی دو ایسوسی ایشنز کے درمیان تنازع اور فیفا کی منظورہ شدہ باڈی کو ہٹا کر فیڈریشن پر قبضہ کرنے پر فیفا نے پی ایف ایف پر پابندی عائد کردی تھی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ فیفا کی جانب سے تعینات نارملائزیشن کمیٹی کو مزید وقت ملنا چاہیے تھا اور ہم بھی نارملائزیشن کمیٹی کے موقف کے ساتھ ہیں، چاہتے ہیں کہ فیفا کے لوگ خود آکر پاکستان میں معاملات دیکھے۔
مزید پڑھیں: اشفاق گروپ کا پیچھے ہٹنے سے انکار، پاکستان فٹبال فیفا کی پابندی کی زد میں آگئی
ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال سے نارملائزیشن کمیٹی میں آپس میں اختلافات ہیں اور اسی سلسلے میں نارملائزیشن کمیٹی کےسربراہ ہارون ملک اور اشفاق حسین دونوں کو بلایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں اور فیفا کو فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی ضرور بھیجنی چاہیے۔
فہمیدہ مرزا نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو بھی فٹبال کے معاملات سے آگاہ کیا ہے اور انہوں نے بھی پاکستان فٹبال فیڈریشن پر قبضے کی مذمت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے بھی یہی ہدایت کی ہے کہ بات چیت سے مسئلے کو حل کریں جبکہ فیڈریشن میں کسی کے خلاف کارروائی سے متعلق فیصلہ عمران خان سے مشاورت کےبعد کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ میں نےتمام فیڈریشن کو آڈٹ کرانے کا پابند کیا ہے اور پاکستان میں اسپورٹس کا کلچر دوبارہ بحال ہورہا ہے۔
پی ایف ایف کا جاری تنازع
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے بدھ کے روز شاہد کھوکر لاہور میں پاکستان فٹ بال فیڈریشن (پی ایف ایف) کے صدر دفتر کے باہر کھڑے فیصلے کے منتظر تھے تاہم اشفاق گروپ نے ہیڈ کوارٹر چھوڑنے سے انکار کردیا اور شاہد کھوکھر واپس چلے گئے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق شاہد کھوکھر فیفا کی مقرر کردہ پی ایف ایف نارملائزیشن کمیٹی کے واحد رکن تھے جو وہاں موجود تھے اور کمیٹی کے چیئرمین ہارون ملک کو یہ اطلاع دینے کے منتظر تھے کہ آیا اشفاق حسین شاہ کی زیر سربراہی عہدیداروں کا گروپ ملک کی فٹ بال کی گورننگ باڈی کا ہیڈ کوارٹر خالی کرنے جا رہا ہے یا نہیں جس پر ہفتے کے روز انہوں نے زبردستی قبضہ کر لیا تھا۔
مزید پڑھیں: پاکستان فٹبال فیڈریشن پر پھر معطلی کا خطرہ منڈلانے لگا
دسمبر 2018 میں سپریم کورٹ کی زیر صدارت پی ایف ایف کے انتخاب میں صدارت سنبھالنے والے اشفاق نے کہا کہ میری کانگریس اور ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین سے متعدد مشاورتوں اور ملاقاتوں کے بعد ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم پی ایف ایف ہیڈ کوارٹر سے کام جاری رکھیں گے۔
واضح رہے کہ 2018 کے ان انتخابات کو فیفا نے تسلیم نہیں کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب 18 ماہ قبل فیفا نے نارملائزیشن کمیٹی کا تقرر کیا تو ہم نے پی ایف ایف ہیڈ کوارٹر کا انتظامی چارج اس کے حوالے کردیا تھا اور ہمیں امید تھی کہ وہ پی ایف ایف کے شفاف اور غیرجانبدار انتخابات کا انعقاد کریں گے اور فٹ بال کو صحیح ڈگر پر ڈال دیں گے لیکن آج تک اس طرف ایک بھی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
اشفاق نے مزید کہا کہ انہوں نے دفتر حوالے کرنے کے ہمارے فیصلے کا مذاق اڑایا، اب ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں کہ نارملائزیشن کمیٹی کو تین بار تبدیل کیا جا چکا ہے لیکن ابھی تک کوئی انتخابی روڈ میپ موجود نہیں ہے۔
فیفا نے ستمبر 2019 میں پی ایف ایف کی نارملائزیشن کمیٹی کا تقرر کیا تھا، پی ایف ایف کے متنازع انتخابات کے تقریبا 4 سال بعد ہی پاکستان فٹ بال مسائل سے دوچار ہو گئی، اس دوران اس وقت کے صدر فیصل صالح حیات کی جگہ عدالت کے مقرر کردہ ایڈمنسٹریٹر کو پی ایف ایف ہیڈ کوارٹرز کا انتظام سونپنے پر فیفا نے پاکستان فٹبال فیڈریشن کو اکتوبر 2017 سے مارچ 2018 تک 6 ماہ کے لیے معطل کردیا تھا۔
پی ایف ایف کی نارملائزیشن کمیٹی کے تقرر کے بعد اس کی صدارت حمزہ خان کے سپرد کی گئی تھی تاہم گزشتہ سال دسمبر میں انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد منیر سدھانا کو قائم مقام چیئرمین مقرر کیا گیا تھا، اس سال جنوری میں ہارون ملک کو پی ایف ایف کی نارملائزیشن کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر نامزد کیا گیا تھا کیونکہ فیفا نے ابتدائی طور پر مقرر کردہ کمیٹی کے تمام اراکین کو تبدیل کردیا۔
انچارج کی حیثیت سے منیر سدھانا نے حمزہ کے تمام فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا تھا یعنی ہارون اور ان کی کمیٹی کو شروع سے ہی کام کا آغاز کرنا پڑا، رواں سال 30 جون تک مینڈیٹ سونپ جانے کے بعد ہارون نے رواں ماہ کے اوائل میں اعلان کیا تھا کہ وہ اپریل تک انتخابی روڈ میپ دیں گے۔
واضح رہے کہ فیفا کی معطلی سے پاکستان بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت سے محروم ہوگیا ہے کیونکہ فیفا صرف ایک فیڈریشن کو تسلیم کرتا ہے جسے فٹبال کی عالمی گورننگ باڈی تسلیم کرتی ہے۔
بدھ کے واقعات نے طویل عرصے سے جاری بحران میں اضافہ کردیا ہے جہاں 2003 سے پی ایف ایف کے صدر کے منصب پر موجود فیصل صالح حیات کے 2015 کے انتخابی تنازع کے بعد سے پاکستان فٹبال مسائل سے دوچار ہے۔
ان انتخابات کے بعد پی ایف ایف دو دھڑوں میں تقسیم ہوگیا تھا، ایک حیات کی زیر سربراہی اور دوسرا سینئر نائب صدر ظاہر علی شاہ کی سربراہی میں کام کررہا تھا اور اس کے دو سال بعد جب لاہور ہائیکورٹ نے پی ایف ایف کے امور چلانے کے لیے ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا تھا تو فیفا نے پاکستان پر پابندی عائد کردی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان فٹبال کو ایک اور دھچکا، فیفا اور اے ایف سی مشن کا دورہ پاکستان ملتوی
اگرچہ فیصل صالح حیات کو صدر کے عہدے پر بحال کر دیا گیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ پنجاب فٹ بال ایسوسی ایشن (پی ایف اے) کے انتخاب کے بعد پی ایف ایف کے تازہ انتخابات کروائے جائیں جو پی ایف ایف میں پھوٹ پڑنے کا سبب بنے تھے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کرائے گئے پنجاب فٹبال ایسوسی ایشن کے انتخابات میں اپنے امیدوار سردار نوید حیدر خان کی کامیابی کے بعد فیصل صالح حیات کو اس نتیجے پر کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن پی ایف ایف انتخابات میں تازہ ڈرامہ رونما ہونے والا تھا۔
انتخابات سے قبل سردار نوید نے فیصل صالح حیات کا ساتھ چھوڑتے ہوئے ظاہر علی شاہ کا ہاتھ تھام لیا تھا جس کے نتیجے میں اشفاق پی ایف ایف کے سربراہ منتخب ہو گئے تھے البتہ فیصل صالح حیات نے سپریم کورٹ کی جانب سے کرائے گئے انتخابات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اسے پی ایف ایف کے معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا۔
اس کے نتیجے میں فیفا نے نارملائزیشن کمیٹی کا تقرر کیا تھا جس کے بعد اشفاق اور ظاہر کی راہیں جدا ہو گئی تھیں اور اس کا مطلب یہ تھا کہ پی ایف ایف پر قبضے کے لیے تین گروپس کوششوں میں مصروف تھے۔