حکومت آئی ایم ایف کی شرائط مانے یا اگلے انتخابات کی تیاری کرے؟
حکومت اس وقت ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ یہ ایک ایسا دوراہا ہے کہ حکومت جس راستے کا بھی انتخاب کرے گی وہ ایک تاریخ رقم کرے گا۔
اس دوراہے پر پہنچنے کی وجہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی ہے۔ اب حکومت کے پاس 2 راستے ہیں، ایک تو یہ کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی رُو سے خسارے میں کمی کی کوششیں کی جائیں اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ آنے والے عام انتخابات کے لیے راہ ہموار کی جائے۔
ایک ہی وقت میں ان دونوں راستوں پر نہیں چلا جاسکتا کیونکہ خسارے میں کمی کے لیے اخراجات پر قابو پانا ہوگا جبکہ انتخابات کی تیاری کے لیے ان خراجات میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اب حکومت کو دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔
اگر حکومت سابق وزیرِ خزانہ حفیظ شیخ کی جانب سے 24 مارچ کو آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عمل کرتی ہے تو اسے تیزی سے اخراجات پر قابو کرنا ہوگا، ایندھن اور توانائی کے نرخوں اور محصولات میں اضافہ کرنا ہوگا اور کورونا وائرس کی وجہ سے صنعتوں کو فراہم کی جانی والی مراعات کو واپس لینا ہوگا۔ یہ وہ مراعات ہیں کہ جن کی اب صنعتوں کو عادت ہوچکی ہے۔
وزیرِاعظم کو اپنی جماعت کے اندر سے بھی کافی دباؤ کا سامنا ہے۔ اراکین اسمبلی اپنے حلقوں کے لیے فنڈز کی بات کر رہے ہیں تاکہ آئندہ انتخابات کے لیے سازگار ماحول تیار کیا جاسکے۔
2023ء کے انتخابات ایک ایسی حقیقت ہیں کہ جس کا سامنا عمران خان کو 2 سال سے بھی کم وقت میں کرنا ہی ہے۔ انتخابات سے قبل ووٹروں کا سامنا کرنے کے لیے اراکین کی جانب سے حلقوں میں فوری طور پر ترقیاتی اسکیمیں اور منصوبے شروع کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔ اب تک تو حفیظ شیخ نے ان اخراجات پر سختی سے قابو رکھا ہوا تھا اور اسی وجہ سے وہ جماعت کے اندر ایک غیر مقبول شخصیت بن چکے تھے۔ انہیں اراکین اسمبلی کے بجائے آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدے زیادہ عزیز تھے۔
اس قسم کے اشارے تواتر کے ساتھ سامنے آرہے ہیں کہ حکومت حفیظ شیخ کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ طے کی گئیں شرائط پر نظرثانی کرنا چاہتی ہے۔ تاہم ایسا ہونا بہت مشکل نظر آتا ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے بورڈ نے معاہدے کی منظوری دے دی ہے اور اس ضمن میں 50 کروڑ ڈالر کی پہلی قسط بھی جاری ہوچکی ہے۔
حماد اظہر بطور وزیرِ خزانہ اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہہ چکے ہیں کہ اس معاہدے پر ’نظرثانی‘ ہوسکتی ہے جبکہ عمران خان نے اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے اجرا کی تقریب میں کہا کہ وہ آئی ایم ایف سے ’دوسرا پیکج‘ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس وقت تک یہ بات واضح نہیں ہے کہ حماد اظہر کی نظرثانی سے کیا مراد تھی۔ کیا وہ اس نظرثانی کی بات کر رہے ہیں جو معمول کے مطابق ہر آئی ایم ایف پروگرام کی ہوتی ہے تاکہ اس کی افادیت کو جانچا جاسکے؟ یا پھر وہ اس معاہدے کے نفاذ سے پہلے اس پر نظرثانی کی بات کررہے ہیں؟ اور کیا ’دوسرے پیکج‘ سے عمران خان کی مراد موجودہ آئی ایم ایف پروگرام میں رہتے ہوئے ہی ایک نیا معاہدہ کرنا ہے یا پھر وہ گزشتہ اپریل میں کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملنے والے قرض کی طرح پھر کوئی قرض لینا چاہتے ہیں؟ ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کا وہ قرض کسی اضافی یا خصوصی شرائط کے بغیر دیا گیا تھا۔
معاملہ جو بھی ہو لیکن اگر حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ حفیظ شیخ کے کیے گئے معاہدے میں شامل اہداف کو تبدیل کروانے میں کامیاب ہوگئی تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ مجھے نہیں یاد کہ آئی ایم ایف کے کسی پروگرام پر دوبارہ بات چیت کی گئی ہو، خاص طور پر اس وقت جب بورڈ نے حال ہی میں اس معاہدے کی منظوری دی ہے اور اس کی پہلی قسط بھی جاری ہوچکی ہے۔
اگر حکومت نے موجودہ معاہدہ برقرار رکھا تو یہ کم از کم ربع صدی (25 سال) میں پہلی ایسی حکومت ہوگی جس نے ایک مدت میں 2 مرتبہ آئی ایم ایف کا در کھٹکھٹایا ہوگا۔ گزشتہ حکومتوں نے ایک ہی راہ کا اتتخاب کیا تھا۔ وہ حکومت میں آئے، انہیں معلوم ہوا کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر خالی ہیں، وہ آئی ایم ایف سے ایک یا دو (کبھی تو 3) سال کے مشکل معاہدے کرتے، زرِ مبادلہ جمع کرتے اور پھر اگلے انتخابات کی تیاری میں لگ جاتے۔ اس طرح جمع شدہ خزانہ دوبارہ خالی ہوجاتا۔
گزشتہ 3 دہائیوں میں کوئی حکومت بھی دوسری مرتبہ اقتدار میں نہیں آسکی ہے۔ اس وجہ سے ہر حکومت اپنے پیچھے آنے والی حکومت کے لیے خالی خزانہ اور قرضوں کا انبار چھوڑ جاتی ہے۔ پھر نئی حکومت بھی اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے پاس جاتی ہے اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے۔
ہم کم از کم 1988ء سے تو یہی رجحان دیکھتے آرہے ہیں۔ یہ وہ سال ہے کہ جس کے بعد سے ہم ہمیشہ کے لیے آئی ایم ایف کو پیارے ہوگئے۔ لیکن ہم نے آج تک کبھی یہ نہیں دیکھا کہ ایک حکومت 2 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس گئی ہو اور وہ بھی اس وقت کہ جب اس کے سر پر اگلے انتخابات کی تلوار لٹکنے لگی ہو۔
یہ بات حیرانی کا سبب ہے کہ حکومت حفیظ شیخ کی جانب سے منظور کی گئی شرائط پر عمل کرنے میں تامل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ شرائط کیا ہیں، کیونکہ تادمِ تحریر آئی ایم ایف نے اس پروگرام سے متعلق دستاویزات جاری نہیں کیے ہیں۔
عمومی طور پر بورڈ کی منظوری کے چند دنوں کے اندر ہی یہ دستاویزات جاری کردیے جاتے ہیں تاہم 24 مارچ کو بورڈ کی منظوری کے بعد 10 روز سے زائد گزرچکے ہیں اور ان دستاویزات کا اب تک کچھ پتا نہیں ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ کورونا کے باعث ان کا کام سست روی کا شکار ہے اور واشنگٹن میں جاری میٹنگوں کے باعث کام کا دباؤ کافی بڑھ گیا ہے۔ لیکن وہ میٹنگ 5 اپریل سے شروع ہوئیں یعنی بورڈ کی منظوری کے 7 دن بعد۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے ہونے والی تاخیر پر سوالیہ نشان موجود ہے۔
دوسری جانب اگر حکومت ان شرائط میں ترمیم کی کوشش کرتی ہے تو اس سے اگلے ایک یا 2 برسوں میں ادائیگوں کے توازن میں بحران کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ اس وقت بھی مالی خسارہ 7 فیصد سے زیادہ کا ہے اور ماہانہ بنیاد پر تجارتی خسارہ، برآمدات اور ترسیلاتِ زر کی نسبت زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
حماد اظہر نے ایک ٹوئیٹ میں اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ حکومت آنے والے بجٹ میں ترقیاتی بجٹ میں اضافے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس طرح خسارے میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ تاریخ کی پہلی ایسی حکومت ہوگی جس نے ایک مدت میں ادائیگیوں کے توازن میں 2 بحرانوں کا سامنا کیا ہوگا۔
یہ کوئی اطمینان بخش صورتحال نہیں ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کا مستقبل جیسا بھی ہوگا اس کے اثرات براہِ راست ملکی سیاست پر مرتب ہوں گے۔
یہ مضمون 8 اپریل 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں