پیپلز پارٹی، اے این پی کو نوٹس قانونی چارہ جوئی نہیں ہے، شاہد خاقان عباسی
مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جنرل سیکریٹری شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لیے 'باپ' سے ووٹ لینے پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو جاری نوٹس قانونی چارہ جوئی نہیں ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 'پی ڈی ایم ایک اتحاد ہے جس کے بیانیے کی نفی کی گئی اس پر اس اتحاد نے پوچھا ہے کہ یہ بتا دیں کہ آپ نے یہ کام کیوں کیا، یہ قانونی چارہ جوئی نہیں ہے، یہ اتحاد کا اندرونی معاملہ ہے اور دو جماعتوں سے یہ بات پوچھی گئی ہے'۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سے ووٹ لینے کے معاملے پر پی ڈی ایم نے پیپلز پارٹی اور اے این پی کو شوکاز نوٹس جاری کر دیے تھے۔
پی ڈی ایم کے سیکریٹری جنرل و مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے 'ڈان نیوز' سے خصوصی گفتگو میں دونوں جماعتوں کو شوکاز نوٹسز جاری کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ نوٹسز پارٹی سربراہان بھٹو زرداری اور اسفند یار ولی کے نام بھجوائے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صدر پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمٰن کی منظوری سے پیپلز پارٹی اور اے این پی کو شوکاز نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کو جواب کے لیے 7 دن دیے گئے ہیں، جو جواب آئے گا اسے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں پیش کیا جائے گا جبکہ سربراہی اجلاس آئندہ کی کارروائی پر فیصلہ کرے گا۔
مزید پڑھیں: 'باپ' سے ووٹ لینے کا معاملہ: پی ڈی ایم نے پیپلز پارٹی،اے این پی کو شوکاز نوٹس جاری کردیے
'نیب کے تماشے اور سرکس چلتا رہے گا'
چیئرمین نیب کو حکومت کی جانب سے بلیک میل کرنے کے بیان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'کل قومی اسمبلی میں بات اٹھائی گئی تھی کہ حکومت کے پاس کچھ ویڈیوز ہیں، ایک خاتون نے وزیر اعظم کے پورٹل پر شکایت کی تھی کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کچھ نازیبا حرکات کی ہیں لیکن اس معاملے کو دبا دیا گیا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'نیب کو ملک میں بڑے بڑے اسکینڈل نظر نہیں آتے جن میں اب روزویلٹ ہوٹل کے اسکینڈل کا اضافہ ہورہا ہے، اس کی ملکیت اب مشکوک ہو چکی ہے جو عدالتی فیصلے آنے تک مشکوک رہے گی'۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 'ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت وضاحت کرے کہ سارا معاملہ کیا ہے کیونکہ ہوٹل انتظامیہ نے گزشتہ روز حکومت سے درخواست کی ہے انہیں ہوٹل چلانے کے لیے مزید 8 ارب روپے دیے جائیں، جو ہوٹل پاکستان کی ملکیت ہے اس کی حقیقت اب عوام کو بتانا ضروری ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'آج ملک میں وہ حکومت ہے جو نہ کشمیر کا معاملہ عوام کے سامنے رکھ سکی، نہ بھارت سے کپاس اور چینی کی درآمد کا اسکینڈل عوام کے سامنے رکھ سکی، جس کے ہر فیصلے میں شک و شبہہ اور ابہام موجود ہے وہ کم از کم اس ہوٹل سے متعلق وضاحت کر دے کہ یہ اربوں کا اثاثہ اب آپ کی ملکیت ہے یا نہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'نیب کے تماشے اور سرکس چلتا رہے گا، یہ بہت پُرانا سرکس ہے جس کا کام صرف ملک کے سیاستدانوں کو بدنام کرنا اور ملکی معاملات کو تباہ کرنا ہے جبکہ آج ہر شخص یہ کہہ رہا ہے کہ یا ملک چلا لیں یا اس نیب کو چلا لیں'۔