• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

کے-الیکٹرک سے متعلق معاہدہ سعودی سرمایہ کار، معاون خصوصی کے درمیان تنازع کا شکار

شائع April 6, 2021
عبدالعزیز الجمیح نے الزام عائد کیا کہ تابش گوہر کا کے-الیکٹرک کے معاملات میں مفادات کا تصادم ہے—تصویر: دی نیوز/ڈان
عبدالعزیز الجمیح نے الزام عائد کیا کہ تابش گوہر کا کے-الیکٹرک کے معاملات میں مفادات کا تصادم ہے—تصویر: دی نیوز/ڈان

اسلام آباد: سعودی سرمایہ کار شیخ عبدالعزیز حماد الجمیح اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی تابش گوہر نے سرِ عام ایک دوسرے پر مفادات کے تصادم، ریاست اور کراچی کے بجلی کے صارفین کو دھوکا دینے کی کوشش کے الزامات عائد کردیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ ڈرامائی موڑ کے-الیکٹرک اور سرکاری اداروں کے درمیان واجب الادا سیکڑوں ارب روپے کے لیے ہوئے تصفیے کو روک سکتا ہے۔

وزیراعظم کو ارسال کردہ ایک خط میں عبدالعزیز الجمیح نے کہا کہ ان کے گزشتہ ماہ دورہ پاکستان کے دوران انہیں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین کی جانب سے تصفیے کے حوالے سے واضح معلومات ملی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: کے-الیکٹرک کی فروخت پر تعطل کو ختم کرنے کیلئے سعودی ٹائیکون کا دورہِ پاکستان

انہوں نے ساتھ ہی شکایت کی کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی (تابش گوہر) کی جانب سے سمجھوتے کی دستاویز پر آخری لمحات میں دیے گئے منفی تبصرے نے شنگھائی الیکٹرک کی جانب سے کے-الیکٹرک کا انتظام سنبھالنے کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔

تاہم تابش گوہر نے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ معاون خصوصی کی حیثیت سے وہ ریاست اور صارفین کا دفاع کرنے کے پابند ہیں اور وہ بغیر کسی جانبداری کے قومی مفاد کا تحفظ کریں گے۔

عبدالعزیز الجمیح کا کہنا تھا کہ 15-16 مارچ کو ان کے دورہ پاکستان کے دوران انہیں یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ زیر التوا مسائل کا حل شنگھائی الیکٹرک کے کے-الیکٹرک میں طویل عرصے سے التوا کا شکار داخلے کی راہ صاف کرے گا۔

وزیراعظم کو ارسال کردہ خط میں انہوں نے مزید کہا کہ مجھے آپ سمیت سب نے یقینی دہانی کروائی تھی کہ تنازع کے حل کی ایک دستاویز، جسے تمام اسٹیک ہولڈرز نے طویل مرحلے کے بعد حتمی شکل دی ہے، وہ وزیراعظم دفتر سے منظوری کے آخری مرحلے میں ہے۔

عبدالعزیز الجمیح نے الزام عائد کیا کہ تابش گوہر کا کے-الیکٹرک کے معاملات میں مفادات کا تصادم ہے لہٰذا تبادلہ خیال کے دوران ان فریقین کی مناسب نمائندگی کو یقینی بنانے کی ہرممکن کوشش کی گئی جو مضبوط اور تنازعات سے پاک دلچسپی رکھتے تھے۔

مزید پڑھیں:حکومت کا کے-الیکٹرک کی منتقلی کے لیے قانون میں ترمیم پر غور

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات چیت میں تابش گوہر کو اس لیے شامل نہیں کیا گیا تھا کیوں کہ وہ کے-الیکٹرک کے سابق چیف ایگزیکٹو افسر اور چیئرمین رہ چکے ہیں اس لیے جہاں کے-الیکٹرک دوسرا فریق تھا وہاں وفاقی حکومت کے مفاد کی مناسب نمائندگی کے لیے وہ موزوں نہیں تھے۔

سعودی سرمایہ کار نے الزام عائد کیا کہ معاون خصوصی کو 10 مارچ کو کے-الیکٹرک کے تمام بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی بریفنگ میں شرکت کی دعوت دی گئی حالانکہ وہ بات چیت کے عمل میں شامل نہیں تھے۔

خط میں کہا گیا کہ انہوں نے سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات کے سرمایہ کاروں کو مایوس کرنے کے لیے خاص طور سے پورے یقین سے یہ کہا گیا کہ حکومت اپنے اور کے-الیکٹرک کے لیے منصفانہ طور پر زیر التوا مسائل حل کرنے سے قاصر ہے اور اس کے جلد حل کی توقع نہیں کرنی چاہیے اور الزام لگایا کہ یہ بدنیتی کے ارادے سے کیا گیا اور اس کے بعد میڈیا میں منفی بات کی گئی۔

مذکورہ الزامات پر ردِ عمل دیتے ہوئے تابش گوہر کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ 2005 سے 2009 تک کے الیکٹرک کے سی ای او رہے ہیں صرف اس وجہ سے مفادات کا تصادم نہیں ہوتا کیوں کہ اس وقت ان کا بلا واسطہ یا بلواسطہ طور پر کے الیکٹرک میں کوئی معاشی فائدہ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:شنگھائی پاور کو کے الیکٹرک کا انتظام سنبھالنے کی منظوری

انہوں نے کہا کہ وہ کے-الیکٹرک کے شنگھائی الیکٹرک کے پاس جانے کے حق میں تھے اور تجویز دی تھی کہ مجوزہ منتقلی کو تیز کرنے کے لیے سی پیک کی چھتری تلے کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ شنگھائی الیکٹرک کے انتظام سنبھالنے کا مطلب یہ ہے کہ دسیوں ارب روپے کی واجب الادا رقوم اور جرمانوں کو منسوخ کرنا، وفاقی حکومت کے فیصلے کے خلاف بجلی کی خریداری کا غیر تجارتی بنیاد پر معاہدہ کرنا، صارفین کے لیے مزید نرخوں اور سرچارج میں اضافے پر رضامند ہونا وغیرہ وغیرہ، یہ ہر ایک کے لیے اہم ہے کہ کم از کم مضمرات سے آگاہ ہوں۔

معاون خصوصی نے مزید کہا کہ شنگھائی پاور کو منتقلی اکتوبر 2016 سے التوا کا شکار ہے جو واضح کرتی ہے کہ مجوزہ شرائط و ضوابط میں کچھ بنیادی طور پر غلط ہے کہ 2 حکومتیں اور متعدد بیوروکریٹس اب بھی اسے قبول کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024