افغان صدر کی تین مراحل پر مشتمل 'امن روڈ میپ' کی تجویز
کابل: ترکی میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس کے دوران افغان صدر اشرف غنی، افغانستان میں امن کے لیے تین مراحل پر مشتمل 'امن روڈ میپ' پیش کریں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق افغان صدر انتخابات سے قبل طالبان سے معاہدہ اور جنگ بندی کا مطالبہ کریں گے۔
مزید پڑھیں: طالبان کی افغانستان سے فوجی انخلا میں تاخیر پر امریکا کو 'سنگین ردعمل' کی دھمکی
واشنگٹن اقوام متحدہ کی شمولیت کے ساتھ رواں ماہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین امن معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے ترکی کے زیر اہتمام ایک کانفرنس کے لیے زور دے رہا ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان سے تمام غیرملکی فوجیوں کے انخلا کی آخری تاریخ یکم مئی کو ختم ہوگئی ہے۔
اشرف غنی کا یہ منصوبہ واشنگٹن کی جانب سے پیش کردہ تجاویز کے مقابلے میں رکھا جائے گا جسے افغان حکومت نے مسترد کردیا تھا۔
جس میں طالبان کے نمائندوں کو شامل کرنے کے لیے عبوری انتظامیہ کو ایک نیا قانونی نظام وضع کرنے کا تصور کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں ہلاکتیں: امن معاہدے کے بعد امریکا کا پہلی بار طالبان پر براہ راست الزام
دستاویزات کے مطابق پہلے مرحلے میں سیاسی تصفیہ کے بارے میں اتفاق رائے اور بین الاقوامی سطح پر نگرانی کی جانے والی جنگ بندی شامل ہوگی۔
دوسرے مرحلے میں صدارتی انتخابات اور 'سیاسی حکومت' کا قیام اور نئے سیاسی نظام کی طرف بڑھنے کے لیے عمل درآمد کے انتظامات ہوں گے۔
تیسرے مرحلے میں افغانستان کی ترقی کے لیے 'آئینی فریم ورک، مہاجرین کی بحالی اور ترقی' شامل ہوگی۔
مزید پڑھیں: طالبان نے امریکا پر افغان امن مذاکرات روکنے کا الزام عائد کردیا
ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ افغان صدر اشرف غنی پہلے ہی اپنے روڈ میپ پر غیر ملکی دارالحکومتوں کے ساتھ تبادلہ خیال کرچکے ہیں۔
تاحال ترکی کے اجلاس کی تاریخ کا فیصلہ ہونا باقی ہے لیکن متعدد ذرائع نے بتایا کہ یہ دو ہفتوں کے دوران ہوسکتا ہے۔
افغان حکومت اور متعدد سیاستدانوں نے کہا کہ افغان صدر کو اجلاس سے قبل طالبان کے ساتھ ایجنڈے پر اتفاق رائے کرنا ہوگا۔
گزشتہ ماہ ایک بیان میں طالبان نے دھمکی دی تھی کہ اگر سابق صدر ٹرمپ انتظامیہ کے مابین معاہدے کے تحت طے شدہ یکم مئی کی ڈیڈ لائن کو پورا نہیں کرتے تو دوبارہ حملے شروع ہوجائیں گے۔
ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے کہا کہ طالبان یکم مئی کی تاریخ میں توسیع کرنے پر راضی ہیں اور وہ کابل حکام کے زیر حراست اپنے ہزاروں قیدیوں کی رہائی کے بدلے غیر ملکی افواج کے خلاف حملے دوبارہ شروع نہیں کریں گے۔
دوسری جانب قطر میں طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے بتایا کہ ایسی کوئی پیش کش نہیں کی گئی تھی۔