خیبرپختونخوا: مسلح افراد کی فائرنگ سے اے ٹی سی جج سمیت 4 افراد جاں بحق
خیبرپختونخوا (کے پی) کےضلع صوابی میں انبار انٹرچینج کے قریب گاڑی پر فائرنگ سے انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) کے جج آفتاب خان آفریدی، ان کی اہلیہ، بہو اور نواسہ جاں بحق جبکہ دو محافظ زخمی ہوگئے۔
پولیس کے مطابق صوابی میں انبار انٹر چینچ کے قریب جج کی گاڑی پر مسلح افراد کی فائرنگ سے اے ٹی سی کے جج آفتاب آفریدی، ان کی اہلیہ، بہو اور ان کا نواسہ جاں بحق ہوئے۔
مزید پڑھیں: پشاور: ٹیسٹ دینے کیلئے آنے والا طالبعلم پولیس کی مبینہ فائرنگ سے جاں بحق
ان کا کہنا تھا کہ فائرنگ سے جج آفتاب خان آفریدی کے 2 محافظ بھی زخمی ہوئے۔
پولیس کے مطابق اےٹی سی کے جج آفتاب آفریدی پشاور سے براستہ صوابی اسلام اباد جارہے تھے جبکہ سوات میں قائم انسداد دہشت گردی کی عدالت میں تعینات تھے۔
شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پولیس عہدیدار نے بتایا کہ واقعہ بظاہر ٹارگٹ کلنگ کا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلح افراد حملے کے بعد فرار ہوگئے۔
ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) محمد شعیب کا کہنا تھا کہ پولیس کی ٹیمیں جائے وقوع پر پہنچ گئیں اور حملے کی تفتیش کی شروع کردی ہے اور آئی جی خیبر پختونخوا ڈاکٹر ثنااللہ عباسی بھی جائے وقوع پر پہنچ گئے۔
ڈی پی او شعیب کا کہنا تھا کہ مقتول جج کا ایک بیٹا اور دیگر رشتہ دار صوابی پہنچ چکے ہیں اور جیسے ہی وہ بیان دیں گے تو قتل کی ایف آئی آر بھی درج کردی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ لواحقین کو شبہ ہے کہ قتل کے پیچھے ذاتی دشمنی کار فرما ہوسکتی ہے جبکہ تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی واقعے کی مذمت کی اور ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ اے ٹی سی جج آفتاب آفریدی، ان کی اہلیہ اور بچوں کے قتل کی بھرپور مذمت کرتا ہوں اور ملزمان کو گرفتار کرکے قانون کے مطابق ان کے ساتھ سلوک کیا جائے گا۔
پشاور میں فروری 2019 میں پشاور ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایوب خان کی کار پر بھی حملہ ہوا تھا جب وہ عدالت جارہے تھے، جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوگئے تھے۔
سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) وسیم ریاض نے بتایا تھا کہ جج اور ان کا ڈرائیور زخمی ہوا ہے اور طبی امداد کے لیے انہیں نجی ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ظہور آفریدی کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے 9 ایم ایم پستول استعمال کیا تاہم وہ جائے وقوع سے فرار ہوگئے تھے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ کے پی کے ضلع بنوں میں 4 جوانوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں ملی تھیں جو چند روز قبل لاپتا ہوگئے تھے جبکہ جانی خیل تھانے کے باہر مقامی افراد نے دھرنا دیا تھا اور بعد ازاں لواحقین نے لاشوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کردیا تھا۔
صوبائی حکومت نے قبائلی عمائدین سے مذاکرات کے بعد احتجاج ختم کرتے ہوئے لاشوں کو دفن کردیا تھا۔
مشیر اطلاعات کامران بنگش نے صوبائی حکومت اور جانی خیل قبیلے کے عمائدین کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہونے کی تصدیق کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: چار لڑکوں کی ہلاکت کا معاملہ: حکومت اور جانی خیل قبیلے کے مابین مذاکرات کامیاب
کامران بنگش نے بتایا تھا کہ تصفیہ کی دستاویزات پر دستخط کرتے وقت کابینہ ممبران سمیت جرگہ ثالثین بھی موجود تھے۔
انہوں نے بتایا کہ 'دھرنا ختم ہوا اور تمام (احتجاجی) شرکا کو واپس جانے کی ہدایات جاری کردی ہیں'۔
اس سے قبل پشاور میں رائیڈر پولیس کی مبینہ فائرنگ سے بنوں سے ٹیسٹ دینے کے لیے آنے والا طالب علم جاں بحق ہوگیا تھا، جس پر شدید احتجاج کیا گیا تھا۔