• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

کاٹن ایسوسی ایشن نے بھارت سے کپاس کی درآمدات کی مخالفت کردی

شائع April 4, 2021
پاکستان کاٹن گنرز ایسوسی ایشن نے کہا کہ اس اقدام سے مقامی کاشت کاروں کی حوصلہ شکنی ہو گی— فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان کاٹن گنرز ایسوسی ایشن نے کہا کہ اس اقدام سے مقامی کاشت کاروں کی حوصلہ شکنی ہو گی— فائل فوٹو: اے پی پی

کراچی: پاکستان کاٹن گنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) نے بھارت سے کپاس کی درآمدات کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے مقامی کاشتکاروں کی اس فصل کو کاشت کرنے کے حوالے سے حوصلہ شکنی ہو گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کاشت کار، گنرز، اسپنرز اور سوتی بروکرز اقتصادی رابطہ کمیٹی کی منظوری کے باوجود حکومت کی جانب سے بھارت سے کپاس کی درآمدات کی اجازت نہ دینے کے فیصلے کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: چینی، کپاس کی درآمد مؤخر: پاکستان کا بھارت سے تجارت بحال نہ کرنے کا فیصلہ

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے پی سی جی اے کے چیئرمین ڈاکٹر جیسو مَل نے کہا کہ اگر ہندوستانی کپاس کی درآمدات کی اجازت دی گئی تو کاشتکار اس سیزن میں کپاس کی کاشت نہیں کریں گے، کپاس کی کاشت سندھ میں شروع ہوچکی ہے اور جلد ہی پنجاب میں شروع ہونے والی ہے۔

کپاس کے بیج، ناقص کیڑے مار ادویات اور کھادوں کی زیادہ لاگت کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کرنے کی وجہ سے سیزن کے دوران کپاس کی پیداوار 9 من فی ایکڑ کے ساتھ صرف 55 لاکھ گانٹھوں کی ہوئی ہے جو گزشتہ سالوں کے مقابلے میں ایک تہائی ہے جب ایک کروڑ 48 لاکھ گانٹھوں کی پیداوار کی گئی تھی۔

جیسو مَل نے کہا کہ حالیہ پیداوار میں فی ایکڑ لگ بھگ 16 من کی کمی ہوئی ہے اور اس میں مزید تیزی سے کمی ہورہی ہے کیونکہ حکومت نے اس انتہائی اہم فصل کو بڑی حد تک نظرانداز کیا ہے جس نے برآمدات کی 60 فیصد سے زیادہ رقم کمانے میں مدد کی تھی۔

کپاس کی پیداواری لاگت پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں یہ 20 ہزار فی ایکڑ (پاکستانی روپے میں) ہے جبکہ پاکستان میں فی ایکڑ لاگت 50 ہزار روپے ہے، مزید برآں اگر کپاس کی قیمت کم ترین مقررہ قیمت سے بھی نیچے آ جائے تو ہندوستانی حکومت کپاس خرید لیتی ہے۔

جیسو مل نے کپاس کے لیے گندم اور گنے کی خطوط پر کم سے کم قیمت مقرر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی حکومت اپنے اسٹاک سے کپاس کی پیش کش کررہی ہے، یہ کاشتکاروں یا گنرز کے ہاتھ میں نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں کپاس کی پیداوار 30 سال کی کم ترین سطح پر آگئی

انہوں نے کہا کہ ہمیں حکومت کی حمایت حاصل نہیں ہے کیونکہ 85 فیصد کسانوں کے پاس صرف 12 ایکڑ اراضی ہے، اسلام آباد میں چھوٹے کاشتکاروں کے پاس تحفظ حاصل کرنے کی کوئی لابی نہیں ہے۔

دریں اثنا ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کپاس کے بروکرز نے کہا کہ بھارت کم قیمت پر لنٹ پیش نہیں کررہا اور اس کے بجائے 80 سے 81 سینٹ فی پاؤنڈ کی رقم لگا رہا ہے جو بین الاقوامی قیمت کے برابر ہے، بروکرز نے بتایا کہ فی الحال اعلیٰ معیار کی امریکی کپاس 84 سے 85 سینٹ فی پاؤنڈ میں دستیاب ہے۔

کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بھارت سے کپاس کی درآمد نہ کرنے کے فیصلے سے ملک میں کپاس کی مروجہ قیمت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، اگر کپاس کی درآمدات کی اجازت دی گئی تو قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

نسیم عثمان نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس وقت جب سندھ اور پنجاب میں کاشت شروع ہو رہی ہے تو ایسے وقت میں ہندوستانی کپاس کی درآمد سے مقامی کاشتکار مایوسی کا شکار ہوسکتے ہیں اور اس میں ایک بڑی تبدیلی آسکتی ہے، انہوں نے بتایا کہ کاشتکار کپاس چھوڑ دیں گے اور گنے، مکئی اور دیگر فصلوں کی کاشت کا انتخاب کریں گے کیونکہ پچھلے سال کاشتکاروں کو بے وقت بارش، کیڑوں کے حملے اور ناقص پیداوار کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

دوسری جانب اسپنرز پہلے ہی ہندوستان سے کپاس اور روئی کے سوت کی درآمدات کے خلاف ہیں۔

مزید پڑھیں: کپاس کی قیمت 11 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

ایک حالیہ بیان میں چیئرمین آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن سندھ اینڈ بلوچستان زون آصف انعام نے موجودہ تنازعات کے حل تک بھارت سے کسی بھی قسم کی درآمدات کی مخالفت کی، انہوں نے ہندوستان سے کپاس کے سوت کی درآمدات کے خیال کی سختی سے مخالفت کی کیونکہ اس سے مقامی اسپننگ کی صنعت بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔

دریں اثنا، ویلیو ایڈڈ سیکٹر نے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ برآمد کنندگان بین الاقوامی آرڈر پورے نہیں کرسکیں گے، علاوہ ازیں یہ بھی خبردار کیا گیا کہ روئی کے سوت کی قلت کے سبب برآمدات میں اہداف حاصل نہیں کیے جا سکیں گے البتہ مقامی سطح پر سوت کی پیداوار کرنے والوں نے ملک میں اس خام مال کی کمی کی تردید کی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024