• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ، بلوچستان کے سرکاری ملازمین کی حکومت کو 24 گھنٹے کی مہلت

شائع April 4, 2021
8 مذاکراتی دور ناکام ہوچکے ہیں—فوٹو: بشکریہ آئی این پی
8 مذاکراتی دور ناکام ہوچکے ہیں—فوٹو: بشکریہ آئی این پی

کوئٹہ: صوبائی حکومت کے نمائندوں اور سرکاری ملازمین کے رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکے جو اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے گزشتہ 6 روز سے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس دوران 8 مذاکراتی دور ناکام ہوچکے ہیں۔

سرکاری ملازمین نے اپنی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کا سرکاری نوٹی فکیشن جاری نہ ہونے تک اپنا احتجاج ختم کرنے سے انکار کردیا۔

دوسری جانب وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے کہا کہ اگر احتجاج کرنے والے ملازمین کے مطالبات پورے کیے گئے تو بلوچستان پر 15-10 ارب روپے کے اضافی بوجھ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ملازمین کے اتحاد کے رہنماؤں نے حکومت کو ان کے مطالبات کی منظوری کے لیے 24 گھنٹے کا وقت دیا اور دھمکی دی کہ اگر مطالبات پر عمل نہیں کیا گیا تو بلوچستان میں تمام شاہراہیں بند کردیں گے۔

سرکاری ملازمین کے رہنما عبد السلام نے کہا کہ اگر صوبائی حکومت ہماری تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کے بارے میں نوٹی فکیشن جاری کرنے میں ناکام رہی تو ہم بلوچستان سے ملک کے باقی حصوں سے منسلک کرنے والی تمام قومی شاہراہوں کو بلاک کردیں گے۔

دریں اثنا ایک پالیسی بیان میں وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا کہ اگر احتجاج کرنے والے ملازمین کے مطالبات پورے ہوگئے تو بلوچستان پر 15-10 ارب روپے کے اضافی بوجھ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ ایسے فیصلے لینے کے حق میں نہیں ہیں جس پر حکومت عمل نہیں کرسکتی۔

انہوں نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ سرکاری ملازمین 'اپنے سرکاری فرائض بخوبی انجام نہیں دیتے'۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر سرکاری ملازمین 'اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دیتے تو ہم ان کی تنخواہوں میں ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ اضافہ کرنے کے لیے تیار ہوتے'۔

جام کمال نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ملازمین کی ایک بڑی تعداد اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کرتی، اگر میں سیاسی اسکورنگ کے لیے فیصلے کرتا ہوں تو میں 25 فیصد کی بجائے 50 فیصد الاؤنس دے کر تعریفیں حاصل کرسکتا ہوں لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔

وزیراعلیٰ نے مظاہرین پر زور دیا کہ وہ صوبے کو درپیش صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملے پر سنجیدگی سے غور کریں اور چیزوں کو درست سمت میں دیکھیں۔

انہوں نے کہا کہ اب تک 20 ہزار افراد کو سرکاری ملازمتوں کی پیش کش کی جاچکی ہیں اور مزید پائپ لائن میں ہیں۔

جام کمال نے مزید کہا کہ الاؤنس اور تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ گزشتہ دو برس کے دوران پنشن بل 30 ارب روپے سے بڑھ کر 50 ارب روپے ہوچکا ہے اور اگلے دو برس میں یہ 60 ارب روپے سے تجاوز کرکے 100 ارب روپے ہوجائے گا۔

جام کمال نے سوال اٹھایا کہ کیا کوئی وقت آئے گا جب حکومت تعلیم، صحت، سڑکیں، ڈیموں، معاشرتی بہبود، زراعت کے لیے کچھ کرے گی کیونکہ ہم صرف تنخواہ، پنشن اور الاؤنس ادا کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کو نجی شعبے کے ملازمین سے بہتر تنخواہ مل رہی ہے۔


یہ خبر 4 اپریل 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024