عمران خان کی طرح (ن) لیگ کے کچھ دوستوں کو بھی یوسف رضا گیلانی کی کامیابی ہضم نہیں ہوئی، بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جس طرح یوسف رضا گیلانی کی کامیابی وزیر اعظم عمران خان کو ہضم نہیں ہوئی، ویسے ہی ہمارے مسلم لیگ (ن) کے کچھ دوستوں کو بھی ہضم نہیں ہوئی۔
خیرپور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ معیشت پر پی ٹی آئی ایم ایف کی جو ڈیل لے کر آئے ہیں اس کی ہم نے پہلے دن سے مخالفت کی ہے، جب یہ منظور ہوا تو ہم نے جگہ جگہ جاکر اس کی مخالفت کی تھی اور پاکستان کے عوام کو بتایا کہ یہ ڈیل ان کے مفاد میں نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: 'اسٹیٹ بینک سے متعلق آرڈیننس کو پارلیمنٹ اور عدالت میں چیلنج کریں گے'
ان کا کہنا تھا کہ اس ڈیل کے نتیجے میں پاکستان کے عوام کو تکلیف پہنچے گی اور اگر ریلیف ہے تو صرف امیروں کے لیے ہے اور پی ٹی آئی ایم ایف ڈیل کے نتیجے میں پاکستان نے اپنی معاشی خود مختاری کھو دی ہے۔
بلاول نے کہا کہ اب اسٹیٹ بینک آرڈیننس منظور کیا گیا ہے، اس سے ہماری معاشی خود مختاری پر سب سے بڑا حملہ ہونے جارہا ہے اور پاکستان کا اسٹیٹ بینک پارلیمان اور عدالت کو جوابدہ نہیں ہوگا، اگر جوابدہ ہوگا تو صرف اور صرف آئی ایم ایف کو جوابدہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کا اسٹیٹ بینک عوام کو جوابدہ نہیں ہوگا تو ہمارے اسٹیٹ بینک کی پالیسیاں پاکستان کے عوام کے بجائے آئی ایم ایف کے فائدے میں ہوں گی اور ہم پاکستان کی معاشی خود مختاری پر اس قسم کا حملہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے اور ہر فورم پر اس آرڈیننس کی مخالفت کرتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معاشی ترقی ناصرف رکی ہوئی ہے بلکہ منفی میں ہے اور معاشی شرح نمو افغانستان جیسے جنگ زدہ ممالک سے بھی کم ہے، اگر ہم آگے ہیں تو مہنگائی کی شرح میں آگے ہیں اور یہ انتہائی حیران کن بات ہے کہ پاکستان جیسا باصلاحیت ملک معاشی طور پر افغانستان کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ پاکستان جیسا ملک مہنگائی پر قابو نہیں پارہا، ایوب کا دور ہو، ذوالفقار بھٹو کا دور، بے نظیر بھٹو کا دور ہو، نواز شریف کا دور ہو یا پرویز مشرف کا دور ہو، پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا اور ہم نے کبھی اتنی مشکلات کا سامنا نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر پاکستانی پونے 2 لاکھ روپے کا مقروض ہے اور یہ صرف عمران خان کی پی ٹی آئی ایم ایف کی وجہ سے ہے، ان کی معیشت کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے، ان کی خارجہ پالیسی پر پیشرفت کیا ہے، ہم بھارت سے تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں جبکہ بھارت نے ہمارے ہر پڑوسی سے ہمارے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک سے متعلق غیر قانونی آرڈیننس کا ہر فورم پر مقابلہ کریں گے، بلاول
انہوں نے مزید کہا کہ کیا پاکستان کی تاریخ میں مسئلہ کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے تعلقات کے درمیان اتنا متنازع اور کفیوژ وزیر اعظم رہا ہے کہ بھارت، کشمیر کی حیثیت تبدیل کر دیتا ہے، وہاں کے مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور پاکستان کا وزیر اعظم قومی اسمبلی میں کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ میں کیا کروں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ تین سال گزرنے کے باوجود کسی پاکستانی کو نہیں پتہ کہ اس منافق وزیر اعظم کی پالیسی کیا ہے، کبھی وہ اپنے آپ کو کشمیر کے سفیر کے طور پر پیش کرتا ہے اور کبھی وہ کلبھوشن یادیو کے وکیل بننے کی کوشش کرتے ہیں، آرڈیننس کے ذریعے کلبھوشن کو این آر او دینے کی کوشش دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم بھی ہیں اور وزیر تجارت بھی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ ہماری تجارت کو بحال کرنا چاہیے، وہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے ذریعے یہ پالیسی کابینہ کو بھیجتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بھارت سے تجارت بحال کی جائے لیکن کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں، یہ کس قسم کی کنفیوژن اور خارجہ پالیسی ہے کہ ایک ہاتھ کو نہیں پتہ کہ دوسرا ہاتھ کیا کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے فیصلہ اکیلے کرنا وزیر اعظم کا اختیار نہیں ہے، یہ پاکستان کے پارلیمان کا فیصلہ ہے لیکن آج تک عمران خان نے کسی ایک جماعت سے بات نہیں کی، پارلیمان کو استعمال کرنے کی کوشش تک نہیں کی، ہمیں یہ فیصلے پاکستان کے پارلیمان کے ذریعے کرنے ہیں کہ بھارت کے ساتھ ہم کیسے اپنی خارجہ پالیسی پر جدوجہد کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم پر مسلط کیے گئے اس وزیر اعظم میں وہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ ہماری خارجہ پالیسی اور ملک چلائے۔
مزید پڑھیں: 'مسلم لیگ(ن) پیپلز پارٹی کے ہاتھوں ذبح ہوگئی'
پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ جب یہ قومی اسمبلی میں ہل گئے تھے اور ان کی الٹی گنتی شروع ہو گئی تھی تو آپ اسی دن فیصلہ کرتے کہ پنجاب اور اس کے بعد قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لا رہے ہیں تو اسی وقت عمران خان، بزدار اور کٹھ پتلی نظام چلا جاتا اور پورا کا پورا سیٹ اپ ختم ہوجاتا۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ سے لے کر اب تک صرف پیپلز پارٹی حکومت کی اپوزیشن کر رہی ہے اور باقی ہمارے اپوزیشن کے دوست، اپوزیشن سے ہی اپوزیشن کررہے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں اس کا فائدہ صرف عمران خان کو ہو رہا ہے اور یہ اپوزیشن کی ناکامی ہے کہ ہم اب تک قوم کے سامنے اسٹیٹ بینک کی خودمختاری چھیننے اور کشمیر کو ایکسپوز نہیں کر سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے آپسی چھوٹے موٹے مسائل کو ایک طرف رکھ کر حکومت پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے اور حکومت کی مخالفت کرنی چاہیے، یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلے دن سے کوشش تھی اور میں اسی کوشش میں لگا رہوں گا کہ کہ پوری اپوزیشن کی توجہ اس نالائق، نااہل اور کٹھ پتلی حکومت پر مرکوز رکھیں کیونکہ اس حکومت کی وجہ سے پورا پاکستان پریشان ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) جس کو بھی مذاکرات کے لیے نامزد کرے گی ہم اس سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ ہم کسی لڑائی میں پڑنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اپوزیشن جماعتیں مل کر حکومت کی مخالفت نہیں کریں گی تو اس کا فائدہ عمران خان کو ہو گا اور ہماری کوشش یہ ہے کہ یہ کٹھ پتلی حکومت اپنی مدت مکمل نہیں کرے، اگر اپوزیشن مل کر ان کا مقابلہ کرتی ہے تو عمران خان اپنی حکومت کی مدت پوری نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ الیکشن جیتنے کے بعد نوشتہ دیوار پڑھا جا چکا ہے اور اس حکومت کو جانا ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: 'پی ڈی ایم میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہمیشہ کے لیے جدا ہو چکے ہیں'
پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ آپس میں لڑنے کے بجائے اگر ہم اس حکومت کو نشانہ بنائیں تو ہم اس مقصد میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ جماعتیں پروپیگنڈا کر کے پیپلز پارٹی کو ایسے پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ جیسے ہم نے کوئی ڈیل کی ہو لیکن آپ جانتے ہیں کہ ہم اس قسم کی سیاست نہیں کرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی جماعت کے لیے غلط بیان بازی اپوزیشن کے فائدے میں نہیں ہے اور اسی وجہ سے میں بھی کوئی بیان دینے سے گریز کر رہا ہوں ورنہ آپ جانتے ہیں کہ ہم اچھے طریقے سے ہر بات کا جواب دے سکتے ہیں۔
انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کی جلد صحتیابی کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ ہیں جن پر بہت اہم ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کو ساتھ رکھیں اور کسی ایک جماعت کا ساتھ نہ دیں۔
بلاول نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے پاس بہت تجربہ ہے اور وہ چھوٹی موٹی جماعتوں کے اختلاف رائے کی وجہ سے اپنے اتحاد کو نقصان نہیں پہنچانے دیں گے اور مسلم لیگ (ن) کو بھی میرا مشورہ ہے کہ وہ تحمل مزاجی کے ساتھ سیاست کرے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پیپلز پارٹی کے کچھ دوستوں کو لگ رہا ہے کہ جیسے یوسف رضا گیلانی کی کامیابی عمران خان کو ہضم نہیں ہوئی، ویسے ہی ہمارے مسلم لیگ (ن) کے کچھ دوستوں کو بھی ہضم نہیں ہوئی، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
مزید پڑھیں: کسی پارٹی کو یکطرفہ طور پر پی ڈی ایم سے نہیں نکالا جاسکتا، پیپلز پارٹی
انہوں نے کہا کہ جس طرح سے ہم مسلم لیگ (ن) کی ضمنی انتخابات میں فتح پر خوش ہوتے ہیں تو اسی طرح مسلم لیگ (ن) کو بھی پیپلز پارٹی کی کامیابی پر خوش ہونا چاہیے، چھوٹے موٹے حسد کی وجہ سے اتنے بڑے مقصد کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے اور ہر وقت آر یا پار کی سیاست نہیں چلتی، آپ کو بہت سنجیدگی اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ فیصلے لینے چاہئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں آج بھی امید کرتا ہوں کہ پی ڈی ایم کے صدر کی حیثیت سے مولانا فضل الرحمٰن اپوزیشن کے درمیان اتحاد میں اضافے کے لیے غیر جانبدار اور سنجیدہ کردار ادا کریں گے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ سینیٹ کا اجلاس عین موقع پر طلب کرنے کی وجہ سے پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کا اجلاس کچھ دنوں کے لیے مؤخر کردیا گیا ہے۔