نالوں کے ساتھ انسداد تجاوزات مہم سے متاثرہ افراد پناہ کے منتظر
کراچی میں گجر نالے پر انسداد تجاوزات آپریشن جاری ہیں جہاں ایک متاثرہ خاتون نگہت کا کہنا ہے کہ 'اس جمہوریت میں ہماری کوئی آواز نہیں ہے اور میڈیا سمیت دیگر مقتدر حلقے ہمارے دکھوں پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں کیونکہ ہمارے سروں سے چھت چھین لی گئی ہے'۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی پریس کلب میں وہ سماجی کارکنوں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے بلائی گئی پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ 'ہمارا کیا ہوگا یا ہمیں کہاں جانا ہے اس کے بارے میں کوئی معلومات ہم سے شیئر نہیں کی گئیں اور جب ہم احتجاج کے لیے آتے ہیں تو وہ ہمارے خلاف ایف آئی آر درج کرتے ہیں'۔
کورنگی نالہ کے آپریشن سے متاثرہ نسیم نے بتایا کہ ان کے علاقے میں آپریشن کے دوران دو افراد کو دل کا دورہ پڑا۔
مزید پڑھیں: کراچی میں تجاوزات کا معاملہ: سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر وزیراعلیٰ سندھ پیش
اپنے مرحوم دوست کی تصویر اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ان میں سے ایک میرا دوست دل کے دورے سے اپنی جان کی بازی ہار گیا'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم غریب عوام کو تکلیف پہنچانے کے علاوہ 10 مساجد بھی ہوں گی جو منصوبے پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں مسمار ہوجائیں گی اور کورنگی میں نالہ اور مکانات کے درمیان فاصلہ کافی ہے، وہ نالہ کے دونوں طرف دو سڑکیں بنانے کے لیے مکانات مسمار کر رہے ہیں'۔
اربن ریسورس سینٹر کے زاہد فاروق نے بتایا کہ برساتی نالوں کی صفائی اور وسیع کرنے کے منصوبے میں 14 ہزار مکانات اور 3 ہزار دکانوں کو مسمار کیا جائے گا اور اس کا اختتام رمضان سے پہلے ہونا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'دو سال قبل ہم نے دیکھا تھا جب کراچی سرکلر ریلوے آپریشن کی وجہ سے تقریبا 1100 افراد بے گھر ہوگئے تھے، یہ ویسا ہی ہوگا لیکن گجر نالہ، محمود آباد نالہ اور اورنگی نالے کے اس ترقیاتی کام کے متاثرین پاکستان کے شہری بھی ہیں، اس سے وہ ریاست ذمہ داری بن جاتے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ جنگ کے دوران بھی مذہبی تہوار منانے کے لیے وقفے ملتے ہیں، یہاں پر متاثرہ افراد میں سے بہت سے عیسائی بھی ہیں اور گڈ فرائیڈے اور ایسٹر بھی قریب ہے، ہم شہری حکومت سے ان مذہبی تعطیلات کے دوران کم از کم آپریشن بند کرنے کی اپیل کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں کو اپنے تہواروں کو پُر امن طریقے سے منانے کی اجازت دی جائے'۔
یہ بھی پڑھیں: 'محمود آباد نالے پر انسداد تجاوزات آپریشن میں عوام نے تعاون کیا'
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم ترقی کے مخالف نہیں ہیں تاہم ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان تمام اقدامات کے نتیجے میں وہاں واقعی کتنے متاثرہ افراد ہیں ان کے بارے میں ایک مناسب سروے کیا جائے اور ان اسٹیک ہولڈرز کو بھی فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کیا جائے، ایک چھت کے نیچے ایک سے زیادہ خاندان رہ رہے ہیں لہذا مکانوں کی گنتی متاثرین کی اصل تعداد فراہم نہیں کرسکتی ہے'۔
انہوں نے یاد دلایا کہ 2019 میں چیف جسٹس آف پاکستان نے آپریشن سے قبل کراچی سرکلر ریلوے کی زمین کے آس پاس کے لوگوں کو وہاں سے منتقل کرنے کا حکم دیا تھا جو ہوا نہیں اور 2020 میں بلاول بھٹو زرداری نے برساتی نالوں کے اطراف کے متاثرہ خاندانوں کو منتقل کرنے کی بات کی تھی لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ایک اور چیز جس کی نشاندہی کی گئی تھی وہ یہ تھی کہ کسی بھی کارروائی سے قبل ماحولیاتی اثرات کی تشخیص نہیں کی گئی ہے، جو ضروری ہے۔