’میں بھی عمران خان ہوں’، لیکن کونسا والا؟
بھیا ایک نیا انکشاف ہوا ہے، وہ یہ کہ ’عمران خان اب ایک نظریہ ہے’ اور یہ راز منکشف کرنے کا سہرا ہے ’میں بھی عمران خان ہوں’ تحریک کے سر ہے، جس سے ہم بذریعہ سوشل میڈیا متعارف ہوئے۔
اس تحریک کی جانب سے فیس بک پر نظر آنے والی ایک پوسٹ نے خان صاحب کے بیٹھے بٹھائے نظریہ ہوجانے کا ہی انکشاف نہیں کیا، یہ بھی بتادیا کہ ’نظام کی تبدیلی کے مشن میں، میں بھی عمران خان ہوں، ہم سب عمران خان ہیں’۔
اس پیغام سے ہماری سمجھ میں یہ تو آگیا کہ کوئی نظام ہے جسے تبدیل کرنا ہے، لیکن باقی کے نکات ہمارے فہم سے ماورا ہیں۔ ابھی کل تک تو ہم نے اپنی آنکھوں سے عمران خان کو دیکھا تھا، تقریر کر رہے تھے، جتنے بھی دکھائی دیے پورے کے پورے انسان تھے، پھر یکایک وہ نظریہ کیسے بن گئے؟ اور یہ اچانک ہم سب عمران خان کیسے ہوگئے، اگر پہلے سے تھے تو کسی نے بتایا کیوں نہیں؟
نوجوانی کے دنوں میں ہمارا کتنا دل جلتا تھا جب لڑکیاں بڑے پیار سے خان صاحب کو ’عمو‘ کہتیں اور ان کی محبت کا دَم بھرتی تھیں، تب اپنی حقیقت جانتے تو ہم ان سے کہہ سکتے تھے قد، رنگت، قسمت، دولت وغیرہ میں انیس بیس نہیں تو انیس سو اور بیس کے فرق کے ساتھ ہی سہی، میں بھی عمران خان ہوں۔ گویا ’ہم بھی ہیں وہی خان صنم’ کچھ تو ادھر بھی۔
خیر جوانی تو گزر گئی، یہ سن کر ہم خوشی سے بے حال ہیں کہ دیر ہی سے سہی ہمیں عمران خان ہونا نصیب ہوا۔ شاید ہوا یہ ہے کہ جوں ہی ہم سب عمران خان ہوئے اور عمران خان کو یہ خبر ہوئی تو وہ بولے ہوں گے ’اے لو، یہ تو سارے کے سارے عمران خان ہوگئے، تو پھر میں کیا ہوں؟’ تب مشیروں نے انہیں مشورہ دیا کہ خان صاحب اب آپ نظریہ ہوجائیں اور یہ مشورہ دیتے ہی تالی کے لیے ہاتھ آگے بڑھا کر کہا کیسا دیا۔ یہ مشورہ فوری طور پر قبول کرلیا گیا اور عمران خان نظریہ قرار پائے۔
اب تک ہم دو قومی نظریہ، نظریہ پاکستان، نظریہ ارتقا، نظریہ وحدت الشہود اور نظریہ وحدت الوجود ہی کی گتھیاں سلجھا رہے تھے کہ ’عمران خان نظریہ’ سامنے آگیا۔ چونکہ اس نظریے کے خدوخال واضح نہیں ہیں، چنانچہ اس کا ماضی حال دیکھتے ہوئے ہم نے اس نظریے کو خود سمجھنے کہ کوشش کی ہے۔
یہ سارا نظریہ ایک نکتے میں بند ہے، جو ہے ’آپ نے گھبرانا نہیں ہے’۔ گویا یہ نظریہ گھبرانے کو تمام مسائل کا سبب سمجھتا ہے اور کہتا ہے
- گھر پر کھانا نہیں ہے، آپ نے گھبرانا نہیں ہے،
- رہنے کو ٹھکانا نہیں ہے، آپ نے گھبرانا نہیں ہے،
- پانی کئی دن آنا نہیں ہے، آپ نے گھبرانا نہیں ہے،
- کہیں انصاف پانا نہیں ہے، آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔
اگرچہ یہ نظریہ نہیں گھبرانا والے نکتے میں سموچا بند ہے، لیکن اس کا ایک اور نکتہ بھی ہے، اور یہ دوسرا نکتہ ہے ’آپ نے یوٹرن لینے سے کترانا نہیں ہے’۔ یعنی اپنے ہی قول کو عمل سے رد کردینا ہے اور پھر سینہ تان کر کہنا ہے ’کرلو جو کرنا’۔
اس طرزِ عمل کا فائدہ یہ ہے کہ اونچے سے اونچا دعویٰ اور بڑے سے بڑا وعدہ پتھر اور قسمت کی لکیر نہیں رہتا، یہاں تک کہ تبدیل ہوسکنے والی مانگ کی لکیر بھی نہیں رہتا، اس لیے آپ اس لکیر کے فقیر نہیں رہتے، البتہ کسی لکیر کے بغیر مانگ مانگ کر فقیر بن جانا اور بات ہے۔ یہ دعوے اور وعدے ریت کی لکیر بن جاتے ہیں، اور یہ لکیر بس ایک لہر یا کسی کے ذرا سے قہر کی مار ہوتی ہے۔
دوسرے تمام نظریات اور ’عمران خان نظریہ’ میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ دیگر نظریات خاموش رہتے ہیں اور ان کی تشریح ان کے ماننے والے کرتے ہیں، لیکن ’عمران خان نظریہ’ اپنی تفسیر کے معاملے میں دوسروں پر انحصار نہیں کرتا، وہ خود تقریر پر تقریر کرکے اپنا آپ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ایک ہی تقریر بار بار کرکے بھی نہیں اکتاتا، چاہے سامعین کا جو بھی حال ہوتا ہو، یوں یہ نظریہ ہمیں استقامت کا سبق دیتا ہے، جسے بعض لوگ ہم قافیہ الفاظ سے یاد کرکے ہمارے خیال میں حماقت کا ثبوت دیتے ہیں۔
باقی کے نظریات کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں، لیکن یہ نظریہ ’منہ زبانی’ ہے، یہ لکھے جانے کو پسند نہیں کرتا، اس لیے لکھی ہوئی تقریر نہیں پڑھتا، یہی وجہ ہے کہ یہ خود کتابوں میں ملتا ہے نہ اس کے پیش کردہ تاریخ اور جغرافیے کے حقائق کتابوں میں پائے جائے ہیں۔
امید ہے کہ ’عمران خان نظریہ’ آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا۔ اب بات کرتے ہیں ’ہم سب عمران خان ہیں’ کی۔
اب تک سوال یہ تھا کہ مسائل اور پریشانیوں پر گھبرائیں نہیں تو کیا کریں؟ اس سوال کا جواب ’ہم سب عمران خان ہیں’ کی صورت میں مل گیا۔ جب ذرا گھبراہٹ ہو آنکھیں بند کرکے کہیں نہیں نہیں میں بابو تو نہیں، میں شبراتی تھوڑی ہوں، کون کہتا ہے میں اللہ دتا ہوں، میں عمران خان ہوں۔ خود کو عمران خان تصور کرتے ہی آپ محسوس کریں گے کہ آپ بنی گالہ کی عظیم الشان اور وسیع رہائش گاہ میں رہ رہے ہیں، جہاں آپ کو ہر سہولت میسر ہے۔ دیکھا کیسے آناً فاناً گھبراہٹ دُور ہوئی۔
تاہم مسئلہ تب پیدا ہوسکتا ہے جب کوئی ہم آپ جیسا ’عمران خان’ جہانگیر ترین سے فرمائش کردے کہ ’جہانگیر بھائی! مجھے بھی اپنے جھاج کی سیر کراﺅ، میں بھی عمران خان ہوں’ یا اَڑ جائے کہ ’میرا ساٹھ گز کا تجاوزات میں آنے والا مکان کیوں گراتے ہو، میں بھی تو عمران خان ہوں’ پھر کیا ہوگا؟ اس مسئلے کا حل یہ ہوسکتا ہے کہ نعرہ بدل کر ’ہم سب کاپی پیسٹ عمران خان ہیں’ کردیا جائے۔
ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ اب تو عمران خان خود بھی عمران خان نہیں رہے۔ وہ کنٹینر پر کھڑا عمران خان کوئی اور تھا، یہ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھا عمران خان کوئی اور ہے۔ ہمیں یہ تو بتایا ہی نہیں گیا کہ ان میں سے کون سا عمران خان بننا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر خودکشی کو ترجیح دینے والا یا اس ادارے سے قرضہ اور ہدایات لینے والا۔ جتنی جلدی ہو ہماری یہ مشکل حل کردی جائے، ہم ’میں بھی عمران خان’ کہنے کے لیے بے تاب ہیں مگر یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کون سا والا عمران خان بننا ہے؟
تبصرے (3) بند ہیں