اسٹیٹ بینک سے متعلق غیر قانونی آرڈیننس کا ہر فورم پر مقابلہ کریں گے، بلاول
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پیٹرول بحران کے معاملے میں وزیراعظم سمیت پوری کابینہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جبکہ اسٹیٹ بینک سے متعلق آرڈیننس کو ہر فورم پر چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت اسٹیٹ بینک کے حوالے سے آرڈیننس فوراً واپس لے، یہ ادارہ صرف پاکستانیوں کو جواب دہ ہے نہ کہ آئی ایم ایف کو، یہ پیپلزپارٹی کے نظریات کے خلاف ہے۔
مزید پڑھیں: سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے چھوٹے سے عہدے کیلئے 'باپ' سے ووٹ لے لیے، مریم نواز
انہوں نے کہا کہ حکومت کو فوراً اس آرڈیننس کو واپس لے کر ختم کرنا چاہیے، ہم ہر فورم پر اس غیر قانونی آرڈیننس کو چینلج کریں گے کیونکہ یہ پاکستان کی معاشی خود مختاری پرایک سنگین حملہ ہے، جس کا ہر پاکستانی پر اثر پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جس طریقے سے اس حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ اپنی معاشی پالیسی اور معاشی معاہدے کیے ہیں وہ عوام کے فائدے میں نہیں ہیں اور غلط طریقے سے معاہدے کیے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اس حکومت میں وہ اہلیت نہیں تھی کہ وہ اس ملک کی معاشی حوالے سے آئی ایم ایف کے پاس نمائندگی کرتی اور مذاکرات کرتی، ان کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ناکام اورنالائق فیصلوں کی وجہ سے آج ہر پاکستانی بوجھ اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر پاکستانی کے جیب پر ڈاکا ہوا ہے، مہنگائی اور غربت کا جس طریقے سے عام آدمی آج مقابلہ کر رہا ہے وہ پاکستان تاریخ میں ایسے بدترین معاشی حالات کبھی نہیں رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ افسوس ناک اور تاریخی ناکامی ہے کہ پاکستان کی معاشی نمو منفی ہو، پاکستان کی شرح نمو بنگلہ دیش اور جنگ زدہ افغانستان سے بھی پیچھے ہو۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا افراط زر بنگلہ دیش اور جنگ زدہ افغانستان سے زیادہ ہوتو یہ بوجھ پاکستان کا عام آدمی کیوں اٹھائے۔
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کو چھیننے کی تازہ سازش کا ہم مقابلہ کریں گے، اس حکومت نے مسلسل غلط پالیسیوں کی وجہ سے عوام کو نقصان پہنچایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کے اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی میں ٹھن گئی
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں جب پیٹرول سستے داموں مل رہا تھا تو پاکستان میں پیٹرول کا بحران تھا، جس کا فائدہ کچھ کارٹیلز اور حکومت نے لیا، جن لوگوں نے یہ فیصلہ لیا تھا وہ صرف ایک معاون خصوصی یا انفرادی نہیں تھا بلکہ یہ کابینہ کا اجتماعی فیصلہ تھا۔
معاون خصوصی برائے پیٹرولیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ وزیراعظم عمران خان کا تھا اورکل انہوں نے یہ کوشش کی کہ ایک معاون خصوصی کو قربانی کا بکرا بنا کر اپنے آپ کو اس گناہ اور تاریخی ظلم بچانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں بچا سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جیسے ندیم بابر کو نکالاگیا ہے ایسے ہی ہر ایک وزیر اور وزیراعظم سمیت جو اس کابینہ میں بیٹھتا ہے، جنہوں نے کابینہ میں بیٹھ کریہ فیصلہ کیا تھا ان سب کو ہٹانا چاہیے اور سب کو مستعفی ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک تاریخی اسکینڈل تھا اور ہم نہیں مانیں گے کہ یہ ایک معاون خصوصی کی بس کی بات تھی، جب ہم پاکستان کے عوام کو پیٹرول کی قیمت کم کرکے فائدہ پہنچا سکتے تھے اس وقت بحران پیدا کرکے چند شخصیات کو فائدہ پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمان کے اندر اورپارلیمان کے باہر ٹف ٹائم دیتی رہے گی جیسے ہم حکومت کے شروع دن سے لے کر آج تک کرتے آئے ہیں۔
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے حوالے سے ایک سوال پر بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اعظم تارڈ ہمارے لیے 'متنازع' تھے کیونکہ وہ بینظیر بھٹو قتل کیس میں ملزمان کے وکیل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ مجھ سے یہ توقع کیسے کرسکتے ہیں کہ میں اپنے اکثریتی اراکین کو کہوں کہ یوسف رضا گیلانی کے بجائے مسلم لیگ (ن) کے تارڈ کو اپوزیشن لیڈر کا ووٹ دیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان سے یا ان کے والد آصف زرداری سے اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر کوئی بات نہیں کی گئی کہ تارڈ کو اپوزیشن کا امیدوار بنا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ان سے فون پر بات کی جاتی تو یہ صورت حال نہیں ہوتی اور کوئی حل نکال لیا جاتا اور ہم یہ کبھی نہیں چھپایا کہ یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بنا رہے ہیں بلکہ اس کے لیے جدوجہد کی ہے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کو توڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ اس کی بنیاد ہم نے رکھی ہے اور یوسف رضاگیلانی کو حکومتی اتحادیوں کے ووٹ ان کی مرضی سے پڑے ہیں اور اگر وہ خود اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنا چاہتے ہیں تو کوئی غلط بات نہیں ہے۔
پی ڈی ایم کے مستقبل پر سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے میڈیا پر زور دیا کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کو آپس میں لڑانے پر توجہ کیوں دے رہا ہے بلکہ اپوزیشن اس حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے متفق ہیں اور اس پر توجہ مرکوز کریں۔
پی پی پی کے سلیکٹڈ بننے سےمتعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ لفظ میں نے دیا تھا اورمجھے معلوم ہے کہ کس کے لیے یہ لفظ مناسب ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں