منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف کا ضمانت کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے زیر حراست صدر شہباز شریف نے منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا۔
شہباز شریف نے ایڈووکیٹ امجد پرویز کے توسط سے عدالت میں درخواست کی جس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں شہباز شریف نے کہا کہ میں نے 1972 میں بطور تاجر کاروبار کا آغاز کیا اور ایگری کلچر، شوگر اور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کرایا۔
یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس میں حمزہ شہباز کی ضمانت منظور
انہوں نے کہا کہ 1980 میں لوہا پگھلانے والی ایسوسی ایشن پاکستان اسٹیل میلٹرز ایسوسی ایشن کا صدر بنا اور 1984 میں لاہور چیمبر کا سینئر نائب صدر منتخب ہوا۔
شہباز شریف نے کہا کہ سماج کی بھلائی کے لیے انہوں نے 1988 میں سیاست میں قدم رکھا جس کے بعد 3 مرتبہ وزیراعلیٰ منتخب ہوا اور اب قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہوں۔
صدر مسلم لیگ (ن) نے مؤقف اختیار کیا کہ نیب نے آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس بنایا ہے، نیب نے اہلخانہ کو بدنیتی سے بے نامی دار قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے نیب نے انکوائری شروع کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے بطور وزیراعلیٰ اپنے خاندان کی شوگر ملز کا خیال نہیں رکھا، عوام کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، پاکستان کے عوام کو اپنا گھر دینے کے خواب کی تکمیل کے لیے آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کا اجرا کیا۔
مزید پڑھیں: حمزہ شہباز کا درخواست ضمانت پر جلد سماعت کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع
شہباز شریف نے کہا کہ نیب ایک متنازع ادارہ بن چکا ہے، سپریم کورٹ بھی اپنی رائے دے چکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں 5 اکتوبر 2018 کو آشیانہ کیس میں گرفتار کیا گیا، آشیانہ کیس میں گرفتاری کے دوران ہی منی لانڈرنگ کی انکوائری شروع کی گئی تھی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ منی لانڈرنگ کا الزام عمومی نوعیت کا ہے، شہباز شریف کی موجودگی کے بغیر وعدہ معاف گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کی کوئی اہمیت نہیں۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ 4 وعدہ معاف گواہوں میں سے کسی ایک گواہ نے بھی شہباز شریف کو اپنے بیان میں نامزد نہیں کیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ 70 سال کا بوڑھا آدمی ہوں، کمر درد اور دیگر متعدد بیماریوں میں مبتلا ہوں اور 28 ستمبر 2020 سے گرفتار ہوں، ریفرنس میں 110 گواہ ہیں اور ٹرائل ابھی ابتدائی سطح پر ہے۔
یہ بھی پڑھیں:منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف، حمزہ شہباز کے جوڈیشل ریمانڈ میں 6 روز کی توسیع
شہباز شریف نے کہا کہ احتساب عدالت سپریم کورٹ میں تسلیم کرچکی ہے کہ اس کیس کو مکمل کرنے میں 1 سے 12 ماہ لگیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 4، 9، 13 اور 14 ہر شہری کے حقوق کی ضمانت دیتے ہیں، منی لانڈرنگ کیس میں حمزہ شہباز سمیت دیگر شریک ملزمان کو بھی ضمانت پر رہا کیا جاچکا ہے۔
درخواست میں انہوں نے استدعا کی کہ ٹرائل باقاعدگی سے جوائن کرتا رہوں گا، عدالت ضمانت پر رہائی کا حکم دے۔
منی لانڈرنگ ریفرنس
خیال رہے کہ 17 اگست کو نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کے دو بیٹوں اور کنبے کے دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔
بعد ازاں 20 اگست کو لاہور کی احتساب عدالت نے شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس سماعت کے لیے منظور کیا تھا۔
ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے خاندان کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔
اس میں کہا گیا کہ شہباز خاندان کے کنبے کے افراد اور بے نامی داروں کو اربوں کی جعلی غیر ملکی ترسیلات ان کے ذاتی بینک کھاتوں میں ملی ہیں، ان ترسیلات زر کے علاوہ بیورو نے کہا کہ اربوں روپے غیر ملکی تنخواہ کے آرڈر کے ذریعے لوٹائے گئے جو حمزہ اور سلیمان کے ذاتی بینک کھاتوں میں جمع تھے۔
ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا۔
اس میں کہا گیا کہ ملزمان نے بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے جرائم کا ارتکاب کیا جیسا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعات اور منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں درج کیا گیا تھا اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ انہیں قانون کے تحت سزا دے۔
مذکورہ ریفرنس میں شہباز شریف ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف سمیت 10 ملزمان پر 11 نومبر کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔