پاکستان اور بھارت کا انڈس واٹر مسائل حل کرنے کیلئے کوششیں کرنے پر اتفاق
پاکستان اور بھارت نے انڈس واٹر سے متعلق مسائل کے حل کے لیے کوششیں کرنے، جانچ پڑتال کے لیے دورے کرنے پر اتفاق کرلیا۔
دفتر خارجہ سے جاری ایک اعلامیہ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان مستقل انڈس کمیشن (پی آئی سی) کا 116 واں اجلاس 23 سے 24 مارچ کو نئی دہلی میں منعقد ہوا۔
واضح رہے کہ انڈس واٹر ٹریٹی کی متعلقہ شرائط کے تحت یہ اجلاس ہر سال متبادل طریقہ کار کے تحت پاکستان اور بھارت میں منعقد ہوتا ہے۔
اس مرتبہ بھارت میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں پاکستان وفد کی نمائندگی پاکستان کمشنر برائے انڈس واٹر سید محمد مہر علی شاہ نے کی۔
دفتر خارجہ کے مطابق اجلاس میں انڈس واٹر ٹریٹی سے متعلق اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ پاکستان کی طرف سے پکل دل، لوئر کلنئی، دربک شیوک اور نیمو چلنگ سمیت بھارتی منصوبوں پر اپنے اعتراض کو اٹھایا گیا۔
مزید پڑھیں: بھارت کے متنازع پن بجلی منصوبوں پر بات چیت کا آغاز
بیان کے مطابق پاکستان نے بھارت پر زور دیا کہ وہ انڈس واٹر ٹریٹی کی شرائط کے مطابق سیلاب کے بہاؤ سے متعلق ڈیٹا شیئر کرے۔
مزید یہ کہ پاکستان کی طرف سے انڈس واٹر ٹریٹی کی شرائط کے تحت باقی رہ جان والے مسائل کے جلد حل کی ضرورت پر زور دیا۔
اعلامیے کے مطابق پاکستان اور بھارت نے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوششیں کرنے، جانچ پڑتال کے لیے دورے کرنے اور کمیشن کی اگلی ملاقات پاکستان میں کرنے پر اتفاق کرلیا۔
قبل ازیں پاکستان کشمنر فار انڈس واٹر مہر علی شاہ نے کہا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ بھارت کے پن بجلی منصوبے مکمل ہورہے ہیں، مستقبل قریب میں یہ منصوبے مکمل نہیں ہورہے ہیں۔
بھارت سے واپسی پر واہگہ بارڈر پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے (انڈس واٹر ٹریٹی) کے تحت سال 2018 کے بعد ملاقات دوبارہ بحال ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی طرف سے ہمارے مؤقف کو پوری توجہ سے سنا گیا اور انہیں امید ہے کہ ہر سال اب یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ انڈس ٹریٹی کے تحت سال یکم اپریل سے شروع ہوتا ہے اور اب یکم اپریل کے بعد بھارت کو بھی ملاقات کے لیے بلایا جائے گا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آخری ملاقات میں ہم نے بھارت کے منصوبے پر تکنیکی اعتراضات اٹھائے تھے، جس پر غور کی ضمانت دی گئی۔
واٹر کمشنر کا کہنا تھا کہ ہم نے بھارت کو سئٹس کا معائنہ کروانا ہے، تاہم ممکنہ سائٹس اور تاریخ سے متعلق بھارت آگاہ کرے گا۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کے دورے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
سیلاب کی صورتحال کے ڈیٹا سے متعلق انہوں نے کہا کہ مون سون میں سیلاب کی ڈیٹا سپلائی، بھارت کی جانب سے ماضی میں بھی مہیا کی گئی ہے جب کہ یکم جولائی سے پہلے ایک ملاقات ہو گی جس میں یہ ڈیٹا شیئر کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین کی ملاقات ہونا ایک معمول کی سرگرمی ہے، ہمیں فکر تب ہونی چاہیے جب یہ ملاقات نہ ہو، ایک سال جب یہ ملاقات نہیں ہوئی تو وہ فکرمندی کا باعث تھا۔
مہر علی شاہ نے بتایا کہ بھارت نے ہمیں کووڈ کے مشکل وقت میں مدعو کیا، یہی مثبت پیش رفت ہے، مزید یہ کہ ان کی جانب سے ہمارے اعتراض سننا اور ان پر غور کی یقین دہانی کرانا خوش آئند ہے۔
دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ بھارت کے پن بجلی کے منصوبے مکمل ہورہے ہیں، مستقبل قریب میں لوئر کلنئی اور پکل ڈل میں منصوبے مکمل نہیں ہورہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ سلسلہ آگے بھی اسی طرح چلتا رہے گا۔
خیال رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے طویل تنازع پر مذاکرات کے لیے 8 رکنی پاکستانی وفد مہر علی شاہ کی سربراہی میں بھارت گیا تھا۔
اگست 2019 میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان فوجی جھڑپ جس میں بھارت نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرکے اپنے دو جنگی طیارے کھو دیئے تھے، کے بعد یہ پہلا اجلاس تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی ٹیم آبی تنازع پر مذاکرات کیلئے بھارت روانہ
عالمی بینک کے زیر قیادت انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت مستقل انڈس کمیشن کا آخری اجلاس اگست 2018 میں لاہور میں ہوا تھا۔
مذکورہ دورے میں بھارت کی جانب سے دریائے چناب پر تعمیر کیے جانے والے پن بجلی منصوبوں کے دیرینہ تنازع کو بھی اٹھایا جانا تھا۔
خیال رہے کہ پاکستان کو تشویش ہے کہ بھارت کے متنازع خطے کشمیر میں چناب پر پکل دُل اور لوئر کلنئی ڈیموں کے پن بجلی منصوبوں سے اس کے علاقے میں ندی کے بہاؤ کو نقصان پہنچے گا۔
تاہم بھارت یہ کہنا آیا ہے کہ اسے ورلڈ بینک کی جانب سے کرائے گئے انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت اس کی اجازت ہے۔