اسلام آباد ہائیکورٹ: چیئرمین سینیٹ انتخاب کے خلاف یوسف گیلانی کی درخواست مسترد
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے خلاف اپوزیشن اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یوسف رضا گیلانی کی درخواست پر سماعت کی اور ان کے وکیل کے دلائل سنے اور بعد ازاں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے درخواست خارج کر دی۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: یوسف رضا گیلانی کی درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ
قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی پی پی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جہاں یوسف رضا گیلانی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیے تھے۔
عدالت میں سینیٹر یوسف رضا گیلانی کے وکیل فاروق ایچ نائیک اور جاوید اقبال پیش ہوئے تھے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے میں کہا کہ آئین میں اس حوالے سے مبہم زبان استعمال کی گئی ہے اور عدالت کو ایوان کی آزادی میں مداخلت سے روک دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان عدالت کو پارلیمان کی کارروائی کا جائزہ لینے سے واضح طور پر روکتا ہے، پارلیمان کی کارروائی میں کسی طرح کی مداخلت کی کوشش ایوان کی خود مختاری، وقار اور آزادی کو کمزور کرے گی اور عدالت غیر ضروری تنقید کی زد میں آئے گی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ عدالتی مداخلت سے عوام کا اعتماد متاثر ہوگا اور اس کے نتائج عدلیہ پر بھی ہوں گے کیونکہ اس سے عدالتوں پر سیاسی معاملات میں مداخلت کا تاثر ہوگا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کا پورا عمل مکمل طور پر ہائی کورٹ کی 'حدود سے باہر' ہے اور اسی لیے یوسف رضا گیلانی کی درخواست 'ناقابل سماعت' ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ یوسف رضا گیلانی کے پاس صادق سنجرانی کو سینیٹ چیئرمین کے عہدے سے ہٹانے کے لیے ایوان بالا میں اکثریتی قرار داد لانے کا موقع ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ عدالت توقع رکھتی ہے کہ مجلس شوریٰ (پارلیمان) کے وقار، سالمیت اور آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے منتخب اراکین اور سیاسی قیادت ریاستی ستون عدلیہ کو ملوث کیے بغیر تنازعات حل کریں گے۔
اس سے قبل سماعت کے دوران درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کے 7 ووٹس مسترد کیے گئے حالانکہ بیلٹ پیپر پر لگائی گئی مہر یوسف رضا گیلانی کے نام پر لگی لیکن اسی خانے کے اندر تھی۔
انہوں نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ پریزائیڈنگ افسر نے کہا کہ ووٹس مسترد کرنے کے میرے فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ بتائیں کہ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کس قانون کے تحت ہوئے جس پر فارق ایچ نائیک نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 60 کے تحت چیئرمین سینیٹ کا الیکشن ہوا۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ صدر پاکستان نے سینیٹر مظفر شاہ کو سینیٹ الیکشن میں پریزائیڈنگ افسر مقرر کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: یوسف رضا گیلانی نے چیئرمین سینیٹ کا انتخاب عدالت میں چیلنج کردیا
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا تھا کہ کیا چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں الیکشن کمیشن کی کوئی شمولیت نہیں؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جی اس میں الیکشن کمیشن کا کوئی کردار نہیں۔
جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے دریافت کیا کہ پھر پارلیمان کی اندرونی کارروائی کے استحقاق سے متعلق آئین کے آرٹیکل 69 سے کیسے نکلیں گے، کیا پارلیمان کی اندرونی کارروائی عدالت میں چیلنج کی جا سکتی ہے؟
جس پر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ اگر پروسیجر میں کوئی بے ضابطگی ہو تو وہ عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکتی، قواعد میں بیلٹ پیپر یا ووٹ سے متعلق کچھ نہیں، رولز اس حوالے سے خاموش ہیں۔
درخواست گزار کا مؤقف
خیال رہے کہ سابق وزیراعظم اور چیئرمین سینیٹ کے لیے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم ) کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی نے فاروق ایچ نائیک کے توسط سے عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کے حق میں پڑنے والے ووٹ مسترد کرنے کا فیصلہ غیر آئینی ہے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں پی ڈی ایم سے تعلق رکھنے والے اراکین کی اکثریت تھی، ناجائز طریقے سے چیئرمین سینیٹ کی سیٹ ہم سے چھینی گئی۔
درخواست گزار نے دعویٰ کیا تھا کہ صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ بنانے کے لیے 12 مارچ کو جاری کردہ نوٹیفکیشن غیر قانونی ہے۔
درخواست گزار نے استدعا کی کہ چئیرمین سینیٹ کے انتخابات کو کالعدم قرار دیا جائے اور صادق سنجرانی کو بھی چیئرمین سینیٹ بنانے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
چیئرمین سینیٹ کا انتخاب
خیال رہے کہ 13 مارچ کو سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب ہوا تھا جس میں پی ڈی ایم کی جانب سے یوسف رضا گیلانی اور مولانا عبدالغفور حیدری امیدوار تھے جبکہ صادق سنجرانی اور محمد خان آفریدی حکومتی امیدوار تھے۔
ایوان بالا میں موجود حکومتی اتحاد میں پاکستان تحریک انصاف کے 27 اراکین، بلوچستان عوامی پارٹی کے 12 اراکین، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے 3 اراکین، آزاد اراکین 3 اور پی ایم ایل (ق) اور جی ڈی اے کا ایک ایک امیدوار تھا۔
دوسری جانب اپوزیشن کے پاس پیپلز پارٹی کے 21، مسلم لیگ (ن) کے 17 اراکین (اسحٰق ڈار کے سوا)، جمیعت علمائے اسلام (ف) کے 5 اراکین جبکہ اے این پی، بی این پی مینگل، پی کے میپ اور نیشنل پارٹی کے 2، 2 اراکین اور جماعت اسلامی کا ایک رکن تھا۔
تاہم ایوان بالا میں موجود 98 ارکان نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا جن میں سے صادق سنجرانی نے 48 ووٹ حاصل کیے جبکہ یوسف رضا گیلانی کو 42 ووٹ ملے جبکہ یوسف رضا گیلانی کے حق میں پڑنے والے 7 ووٹس مسترد ہوئے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے بھی 98 ووٹ کاسٹ ہوئے اور کوئی ووٹ مسترد نہیں ہوا اس کے باوجود مرزا محمد آفریدی نے 54 ووٹ حاصل کیے جبکہ عبدالغفور حیدری کو 44 ووٹ ملے تھے۔