اپوزیشن آج قانون سازوں پر مشتمل پینل کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی
اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کی تشکیل دی جانے والی سینئر پارلیمنٹیرین کونسل (ایس پی سی) جس کا مقصد ایوان میں کام کے ماحول کو بہتر بنانا ہے، اس کا پہلا اجلاس (آج) پیر کو ہوگا جبکہ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں نے اپنی اپس پی سی کی کارروائی سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر برائے قومی فوڈ سیکیورٹی سید فخر امام کی زیر صدارت میں ہونے والے اجلاس میں 6 مارچ کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر اپوزیشن کے قانون سازوں سے تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں کی بدتمیزی کے معاملے کا بھی جائزہ لے گی۔
مزید پڑھیں: پارلیمان کے باہر لیگی رہنماؤں سے پی ٹی آئی کارکنوں کی مڈبھیڑ، شدید ہنگامہ آرائی
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پارٹی نے اسپیکر کی تشکیل دی جانے والی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مریم اورنگزیب نے کہا ایسا لگتا ہے کہ اسپیکر اس معاملے پر جرگہ بلانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کا خیال تھا کہ چونکہ یہ واقعہ پارلیمنٹ ہاؤس اور پارلیمنٹ لاجز کے آس پاس میں پیش آیا تھا لہذا اسپیکر کو ازخود ایکشن کرنا چاہیے تھا اگر وہ واقعتاً انصاف کرنا چاہتے تھے۔
مریم اورنگزیب نے مزید کہا کہ ہم گاؤں میں نہیں رہ رہے ہیں جہاں جرگوں کے ذریعے مقدمات کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو فاشسٹ ریاست نہیں بننے دیں گے، احسن اقبال
دوسری طرف پیپلز پارٹی کے رہنما راجا پرویز اشرف نے کہا کہ انہیں ابھی تک اجلاس میں شرکت سے متعلق پارٹی قیادت کی طرف سے کوئی ہدایت نامہ موصول نہیں ہوا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اس معاملے پر مشترکہ اپوزیشن کے فیصلے کے ساتھ چلے گی۔
15 اراکین پر مشتمل ایس پی سی کی تشکیل اسپیکر نے 10 مارچ کو 9 نکاتی ٹی او آر کے ساتھ کی تھی جس کا مقصد سیاسی وابستگی کے بجائے باہمی احترام پر مبنی پارلیمانی روایات کو فروغ دینا اور اس میں کسی بھی ناخوشگوار واقعات کی روک تھام کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
اسپیکر نے گزشتہ ہفتے 6 مارچ کے معاملے کو حقائق کی تحقیقات کے لیے ایس پی سی بھیج دیا جس کی وجہ سے قومی اسمبلی کے قانون سازوں کے ساتھ بد سلوکی ہوئی تھی۔
اس وقت، قومی اسمبلی کے سیکریٹریٹ کے سرکاری اعلامیے میں کہا تھا کہ کونسل کی سربراہی خود اسپیکر قومی اسمبلی کریں گے اس کے لیے 15 دن میں رپورٹ پیش کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان میں تصادم
اسپیکر نے اجلاس اس حقیقت کے باوجود طلب کرلیا کہ حزب اختلاف نے تاحال فیصلہ نہیں کیا کہ کونسل کا حصہ بننا چاہیے یا نہیں۔
پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے بیان دیا تھا کہ کونسل کی تشکیل سے قبل ان کی پارٹی سے مشاورت نہیں کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اسپیکر نے ممبران پارلیمنٹ کا اعتماد کھو دیا ہے اور اس لیے اپوزیشن کا خیال ہے کہ انہیں خود ہی کمیٹیوں کے قیام کا حق نہیں ہے۔
کونسل کے ممبران میں سید فخر امام، شفقت محمود اور حکمران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے پرویز خٹک ہیں، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم) کی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی (متحدہ قومی موومنٹ پاکستان)، خالد حسین مگسی (بلوچستان عوامی پارٹی)، چودھری طارق بشیر چیمہ (پاکستان مسلم لیگ قائداعظم)، رانا تنویر حسین، سردار ایاز صادق اور چوہدری محمود بشیر ورک (مسلم لیگ نواز)، راجا پرویز اشرف اور آفتاب شعبان میرانی (پی پی پی)، متحدہ مجلس عمل کی شاہدہ اختر علی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل شامل ہیں۔