مودی حکومت کے ناقد نامور دانشور یونیورسٹی سے مستعفی، طلبہ سراپا احتجاج
بھارت کی صف اول کی یونیورسٹی سے ملک کے بہترین دانشور اور مودی حکومت کے ناقد کے مستعفی ہونے پر ملک میں طلبہ سراپا احتجاج ہیں اور انہوں نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں آزادی اظہار رائے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
غیرملکی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سیاست اور آئینی قوانین پر مکمل گرفت رکھنے والے نامور بھارتی دانشور پرتاب بھانو مہتا وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت پر عدم اطمینان کا اظہار کر چکے ہیں اور اپنے چبھتے ہوئے اداریوں اور تقاریر سے ملک میں لبرل ازم کی موت کی مذمت کرتے رہتے ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارت آزادی رائے کو روکنے والے 'ڈیجیٹل شکاریوں' کی فہرست میں شامل
آکسفورڈ اور پرنسٹن جیسی عالمی معیار کی جامعات سے وابستہ رہنے والے نامور محقق نے 2019 میں اشوک یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے سے بھی استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ مبینہ طور پر یونیورسٹی کے ٹرسٹیز ان کے بے باک خیالات سے پریشان تھے البتہ انہوں نے یونیورسٹی میں بطور پروفیسر پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔
تاہم گزشتہ ہفتے انہوں نے یہ کہتے ہوئے شکست تسلیم کر لی تھی کہ یونیورسٹی کا 2014 میں قائم ہونے والا بورڈ انہیں سیاسی بوجھ سمجھتا ہے۔ انہوں نے اپنے استعفے میں لکھا کہ آزادی کی آئینی اقدار کے تحفظ اور تمام شہریوں کے لیے یکساں احترام کی کوششوں کے لیے لکھی جانے والی میری تحاریر کو یونیورسٹی کے لیے خطرہ تصور کیا جا رہا ہے۔
انڈین ایکسپریس ڈیلی کے مطابق اشوک کے بانیان نے حال ہی میں پرتاب بھانو مہتا سے ملاقات کر کے کہا تھا کہ موجودہ سیاسی ماحول میں اب وہ ان کا مزید تحفظ نہیں کر سکتے۔
یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سے نکالے جانے والے اخبار کے مطابق بورڈ نے پرتاب بھانو مہتا کے استعفے کی منظوری دے دی ہے تاکہ یونیورسٹی کی توسیع کے لیے درکار زمین کے حصول کے لیے کوششوں کو تیز کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: مذہب کے خلاف آزادی اظہار رائے کو استعمال نہیں کرنا چاہیے، اقوام متحدہ
یونیورسٹی نے ابھی تک اس تنازع پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن اس حوالے سے تناؤ میں جمعرات کو اس وقت اضافہ ہوا جب سابق چیف حکومتی اقتصادی مشیر اروند سبرامنیم نے بھی پرتاب بھانو سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اشوک یونیورسٹی سے استعفیٰ دے دیا۔
میڈیا رپورٹس میں ان کے استعفی کے خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ یونیورسٹی اب 'تعلیمی اظہار اور آزادی کو مزید گنجائش فراہم نہیں کرسکتی جو ایک پریشان کن امر ہے'۔
طلبہ نے نئی دہلی کے باہر اشوک کیمپس میں کئی روز تک مظاہرے کیے اور کلاسوں کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔
یونیورسٹی کے اساتذہ نے بھی ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ پرتاب بھانو مہتا کی رخصتی سے یونیورسٹی کی تعلیمی آزادی کے ساتھ ساتھ اس کے اندرونی طریقہ کار کے حوالے سے بھی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔
کولمبیا، ییل اور آکسفورڈ سمیت دنیا بھر میں 150 سے زائد ماہرین تعلیم نے ایک کھلے خط میں کہا کہ وہ اس بات سے شدید پریشان ہیں کہ مہتا نے 'سیاسی دباؤ' کے تحت استعفیٰ دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں مسلمان سمیت تمام اقلیتیں غیر محفوظ ہیں، وزیر خارجہ
مودی حکومت کے دور میں حکام نے نوآبادیاتی دور کے قوانین کا لوگوں کو 'بغاوت' کے الزام میں گرفتار کرنے کے لیے استعمال کیا جس میں گزشتہ ماہ ایک 22 سالہ ماحولیاتی تبدیلی کے رضاکار کی گرفتاری بھی شامل ہے۔
یہاں تک کہ مزاح نگار بھی معاملے کی گرمی کو محسوس کر چکے ہیں کیونکہ جنوری میں منور فاروقی کو اسٹیج پر جانے سے پہلے اس شک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا کہ وہ ہندو دیوتاؤں کی توہین کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
آنے والے دنوں میں جن سوشل میڈیا قوانین کا اطلاق ہونے والا ہے اس کے تحت 36 گھنٹوں کے اندر کوئی بھی آن لائن مواد قابل اعتراض سمجھا جاسکتا ہے اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کو کسی بھی "شرارتی ٹویٹ یا پیغام" کی اصل ظاہر کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔