جشن ہائے بہاراں: نوروز سے ایسٹر اور ہولی سے بسنت تک
*یہ تحریر ابتدائی طور پر 22 مارچ 2021ء کو شائع ہوئی جسے نوروز کی مناسبت سے دوبارہ شائع کیا جارہا ہے۔
چاہے کوئی لفظ نوروز کسی بھی تلفظ سے ادا کرے لیکن جیسے ہی سورج برج حمل کے مدار میں داخل ہوتا ہے ویسے ہی کھانے کی میزیں بھی طرح طرح کی اشیا سے سج جاتی ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب برجوں کا نیا سال شروع ہوتا ہے اور ساتھ ہی یہ وہ وقت بھی ہوتا ہے جب کئی پارسی، اسماعیلی اور ساتھ ہی افغانستان اور وسط ایشیا کے کچھ لوگ بھی بہار یا اعتدال بہار کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ ایک نئی زندگی اور ایک نئے سال کا آغاز ہوتا ہے۔
اس سال پاکستان میں اعتدال بہار ہفتے کے روز دوپہر 2 بج کر 36 منٹ پر ہوا۔ چونکہ میں اس تہوار کے بارے میں لکھنا چاہتی تھی اس وجہ سے میں نے اس تہوار کو منانے والوں کی کھوج شروع کردی۔ سب سے پہلے میں نے اپنے پارسی دوستوں کو اس امید کے ساتھ فون کیا کہ شاید ان میں سے کوئی مجھے اپنے ساتھ اس تہوار میں شریک کرلے۔ پارسی سب سے زیادہ دوستانہ اور مہمان نواز لوگ ہوتے ہیں لیکن ان میں سے سب نوروز کے لیے خاص طور پر میز نہیں سجاتے۔
میری بچپن کی دوست ’ٹی جے ڈی‘ نے مجھے بتایا کہ ’ایرانی پارسیوں کے یہاں خصوصی طور پر میز سجائی جاتی ہے۔ ہم تو صرف ایک شاندار کھانے کا اہتمام کرتے ہیں‘۔ اسی وجہ سے اس جشن کو فارس کے بادشاہ جمشید کے نام پر جمشیدی نوروز کہتے ہیں۔ شمسی ہجری کلینڈر بھی اسی بادشاہ کے نام سے منسوب ہے۔
پارسی ایک اور نوروز بھی مناتے ہیں جو اس سال 16 اگست کو آئے گا۔ یہ نوروز انڈین کلینڈر کے اعتبار سے منایا جاتا ہے، جس میں سالِ کبیسہ کا خیال نہیں رکھا جاتا اور اسی وجہ سے نوروز دیر سے آتا ہے۔
کچھ سال قبل میں نے ٹوئیٹر پر ایک ایسی اسماعیلی خاتون کو ڈھونڈا جو روایتی طریقے سے نوروز مناتی تھیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ ’ٹھیک ہے، لیکن آپ صبح ساڑھے 6 بجے آجائیے گا اور برائے مہربانی تاخیر مت کیجیے گا‘۔ لیکن میں نے صبح ساڑے 6 کو شام ساڑھے 6 سمجھ لیا۔ اس غلطی کی وجہ سے مجھے ناصرف وہ تہوار چھوڑنا پڑا بلکہ ان خاتون نے مجھے ان فالو بھی کردیا۔
پاکستان میں اب پارسی کم ہی رہ گئے ہیں اور ایران سے تعلق رکھنے والے پارسی تو بہت ہی کم ہیں۔ لیکن پھر بھی میری کوششیں رنگ لے آئیں اور مجھے کچھ گھروں میں نوروز کے جشن میں شریک ہونے کی دعوت مل گئی۔
پارسی اور اسماعیلی دونوں ہی میز کو سجانے میں اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ میز پر موجود اشیا کے نام ’س‘ سے شروع ہورہے ہوں۔ میز پر سبزیاں ہوتی ہیں جن میں عموماً گندم کے تازہ اُگے ہوئے پودے ہوتے ہیں جنہیں نوروز سے کچھ دن قبل ہی اگایا جاتا ہے تاکہ وہ نوروز تک کچھ بڑے ہوجائیں (جو اور دالوں کی کونپلیں بھی ہوتی ہیں لیکن گندم زیادہ عام ہے)۔ اس کے علاوہ گندم کی کونپلوں سے تیار کردہ ایک قسم کی پڈنگ بھی ہوتی ہے جسے سمانو کہتے ہیں۔ میز پر سیب، خشک میوے (سنجد)، لہسن (سیر)، سرکہ اور کچھ سکّے بھی رکھے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان 7 چیزوں پر مشتمل میز کو ’ہفت سین‘ بھی کہا جاتا ہے۔
طرح طرح کی چیزوں سے سجی اس میز پر مٹھائیاں بھی ہوتی ہیں اور میٹھے مشروبات بھی۔ ایک پیالے میں گولڈ فش بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح ابلے ہوئے انڈے بھی رکھے جاتے ہیں جنہیں بچوں نے سجایا ہوتا ہے۔ اس کا مقصد تہوار میں بچوں کو بھی شریک کروانا ہوتا ہے۔ جیسے ہی گھڑی مقررہ وقت کا اعلان کرتی ہے تو گھر کے افراد ایک دوسرے پر اور مہمانوں پر عرق گلاب چھڑک کر اس تہوار کو منانے کا آغاز کرتے ہیں۔ وہ مل کر ایک موم بتی یا مٹی کے دیے کو جلاتے ہیں اور ایک ایک کرکے آئینے میں اپنا مسکراتا ہوا عکس دیکھتے ہیں (اپنا مسکراتا ہوا عکس دیکھنا سال بھر کی خوشیوں سے منسوب ہے) اور اس دوران وہ سب کی بھلائی اور زمین کی خوشحالی کی دعائیں کرتے ہیں۔
سجے ہوئے انڈے ایک نئے جنم اور تخلیق کی علامت ہیں۔ میز پر موجود سکوں کی طرح گولڈ فش بھی دولت کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ اس بات کی امید ہوتی ہے کہ نیا سال اپنے ساتھ خوشحالی، صحت اور مسرتیں لے کر آئے گا۔ چونکہ روایت کے مطابق اس میز کو 13 دن سجے رہنا ہوتا ہے جس میں سب کو دعوت عام ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دن اس مچھلی کے لیے آسان نہیں ہوتے۔ اس وجہ سے ایک جگہ مجھے میز پر گولڈ فش کی تصویر نظر آئی اور ایک دوسری جگہ میز پر مچھلی کے شکل میں برفی رکھی ہوئی تھی۔ اسی طرح ایک گھر میں مچھلی کی شکل کی ٹرے میں پھل سجائے گئے تھے۔
نوروز کے ساتھ نئے جنم کو مناتے کئی دیگر مذہبی اور روایتی تہواروں کا آغاز بھی ہوجاتا ہے۔ ان تہواروں میں سب سے بڑا تہوار ایسٹر کا ہوتا ہے لیکن ایسٹر سے پہلے ایک ہندو تہوار ہولی آنے والا ہے۔
ہولی رنگوں کا تہوار ہے۔ یہ مارچ کے مہینے کے پہلے پورے چاند پر منایا جاتا ہے ۔ اس سال یہ 28 مارچ کو منایا جائے گا۔ یہ وہ دن ہے جب رنگوں سے بھری پچکاریاں اور غبارے نظر آئیں گے۔ اگر آپ بھی اس تہوار کا حصہ ہوں گے تو آپ خود کو ان چیزوں سے بچنے کے لیے چھپتے ہوئے دیکھیں گے لیکن ظاہر ہے پھر خود بھی اس شرارت میں شامل ہوجائیں گے۔
اگرچہ یہ ایک ہندو تہوار ہے لیکن کچھ مسلمان بھی خوشیوں کے چند لمحات گزارنے کے لیے اس میں شامل ہوتے ہیں۔ اس تہوار کی مذہبی اہمیت بھی ہے لیکن اسے فصل کی کٹائی کے وقت بھی منایا جاتا ہے جو اپنے آپ میں جشن کا موقع ہوتا ہے۔
نوروز کی طرح ایسٹر میں بھی سجے ہوئے انڈے ہوتے ہیں جو ایک نئی زندگی کی علامت ہوتے ہیں۔ گڈ فرائیڈے ایسٹر سے 2 دن قبل منایا جاتا ہے۔ عیسائی عقیدے کے مطابق اس دن حضرت عیسٰی کو مصلوب کیا گیا تھا جبکہ ایسٹر سنڈے وہ دن کہ جب انہیں دوبارہ زندہ کیا گیا تھا۔ ایسٹر ایک نئی زندگی کا جشن ہے۔ اس سال ایسٹر کا تہوار 4 اپریل کو منایا جائے گا۔
اس دوران پورے ملک میں جشن بہاراں اور بسنت منائی جاتی ہے۔ لوگ اس الجھن کا شکار رہتے ہیں کہ بسنت کو پتنگیں اڑا کر منایا جائے یا پھر صرف تازہ کھلے ہوئے زرد پھولوں کی مناسبت سے زرد رنگ کے کپڑے پہن کر بسنت منائی جائے۔
یہ مضمون 21 مارچ 2021ء کو ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
تبصرے (4) بند ہیں