سیدو شریف ایئرپورٹ کھلنے سے اہلِ سوات کو کیا فائدہ ہوگا؟
بچپن کی یادوں میں 2 یادیں ایسی ہیں جو اب تک دل کو گدگداتی ہیں۔ پہلی یاد، کٹی ہوئی پتنگ کے پیچھے دوڑنا اور اسے حاصل کرکے گویا خود کو سکندر تصور کرنا، اور دوسری یاد مٹی اور گارے سے بنے گھر کی چھت پر کھڑے ہوکر پی آئی اے کی پرواز اترتے دیکھنا اور تالیاں بجانا۔
اب ایک عرصہ ہوچکا کوئی کٹی ہوئی پتنگ دیکھنے کو ملی نہ پی آئی اے کی اترتی ہوئی پرواز۔ اس تیز ترین دور کے تقاضے اور ہیں۔ بچے ٹیکنالوجی کا کچھ اس طرح شکار ہوچکے ہیں کہ وہ اسمارٹ فون سے نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہے جبکہ پی آئی اے کی پروازیں ’طالبانائزیشن‘ کی نذر ہوچکی ہیں۔
سنہ 2004ء سے سیدو شریف ایئرپورٹ تاحال بند ہے، گوکہ درمیان میں اعلیٰ حکام و دیگر کو لانے والی پروازیں اترا کرتی ہیں، مگر عوام کے لیے ایئرپورٹ بند ہی ہے۔ اب سول ایوی ایشن اتھارٹی کی طرف سے عندیہ دیا جاچکا ہے کہ مارچ کے آخری ہفتے میں ڈومیسٹک فلائٹس کا آغاز ہوگا جس کی وجہ سے ایک بحث چھڑ گئی ہے کہ ایئرپورٹ کھلنے سے اہلِ سوات کو کیا فائدہ ہوگا؟
سرِدست ایئرپورٹ کی تاریخ پر تھوڑی سی روشنی ڈالتے ہیں۔
سیدو شریف ایئرپورٹ کی تاریخ
سوات کے سینئر صحافی فضل ربی راہی اپنی کتاب ’سوات سیاحوں کی جنت‘ میں ’سوات ایئرپورٹ‘ کے زیرِ عنوان لکھتے ہیں کہ ’سوات کا ہوائی اڈہ، مینگورہ سے 3 کلومیٹر دُور کانجو کے مقام پر ڈھیرئی کے قریب واقع ہے‘۔
معلومات عامہ کی ویب سائٹ ’آزاد دائرۃ المعارف‘ (وکی پیڈیا) میں سیدو شریف ایئرپورٹ کے حوالے سے درج ہے کہ اسے 1978ء میں تعمیر کیا گیا۔ ابتدا میں ایک پرواز پشاور اور دوسری اسلام آباد کے لیے مختص تھی۔
کانجو کے ایک رہائشی، جن کے والد ایئرپورٹ کے ملازم رہ چکے ہیں، ان کے مطابق ایئرپورٹ پر کام 1975ء میں تکمیل کو پہنچا تھا۔ ’پہلی پرواز فصلوں پر کیڑے مار ادویات کا اسپرے کرنے کی غرض سے اڑان بھری تھی۔ اس دور میں ہوا سے فصلوں پر کیڑے مار ادویات کا اسپرے کیا جاتا تھا۔ کمرشل فلائٹس کا رواج اس کے بعد ہوا‘۔
مگر کچھ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ سنہ 77ء-1976ء میں بھی ایئرپورٹ زیرِ تعمیر ہی تھا۔
ذاتی خواہش تھی کہ ایئرپورٹ جاکر معاملات سے متعلق معلومات جانی جائیں اور دیکھا جائے کہ وہاں اس حوالے سے کیا انتظامات چل رہے ہیں تاکہ قارئین کو اس حوالے سے آگاہ کیا جائے، مگر حیران کن طور پر مسلسل کوشش کے باوجود سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر حکام نے نہ ایئرپورٹ میں داخلے کی اجازت دی اور نہ ہی وہاں کی کوئی تصویر اتارنے دی۔
سوات میں روزنامہ ڈان کے نمائندے فضل خالق اپنی یادوں کی پوٹلی کھولتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میرے والد دلارم خان پی آئی اے کے ملازم رہ چکے ہیں۔ سیدو شریف ایئرپورٹ میں ایک بڑا سیکشن ہورٹی کلچر ڈیپارٹمنٹ (Horticulture Department) کا تھا جس میں انواع و اقسام کے پھول کھلا کرتے تھے۔ میرے والد اس سیکشن کے انچارج تھے۔ 1980ء کے عشرے میں تازہ گلاب، گلِ نرگس، گلِ لالہ وغیرہ یہاں بکثرت کھلا کرتے تھے۔ یہاں سے تازہ گلاب کی پیٹیاں ملک کے دیگر حصوں میں پہنچائی جاتی تھیں۔ سوات کے پھولوں کی باقاعدہ نمائش ہوتی تھی۔ کئی بار پی آئی اے ان پھولوں کی بدولت نمائش جیتنے میں کامیاب بھی ہوئی‘۔
سیدو شریف ایئرپورٹ کے کھلنے سے سوات کی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
سوات ہوٹلز ایسوسی ایشن کے صدر الحاج زاہد خان کے بقول سوات کی معیشت پر ایئرپورٹ کے دُور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ ’سیدو شریف ایئرپورٹ کی بندش کی وجہ سے سوات کی سیاحت پر کافی منفی اثرات پڑے ہیں۔ اس کی بندش کی وجہ سے ہمارے سمندر پار سواتیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ جیسے انہیں سوات آنے کے لیے پہلے اسلام آباد یا پشاور شہر میں اترنا ہوتا اور پھر وہاں بذریہ گاڑی وہ اپنے شہر لوٹتے ہیں، لیکن ایئرپورٹ کھلنے کے بعد سمندر پار اہلِ سوات کو یہ رعایت مل جائے گی کہ وہ کنیکٹیڈ فلائٹ (Connected Flight) سے باآسانی سوات پہنچ جایا کریں گے۔ اسی طرح اگر کوئی سوات سے سمندر پار جارہا ہو تو وہ یہاں سے ڈومیسٹک فلائٹ (Domestic Flight) کے ذریعے دیگر ہوائی اڈوں تک رسائی حاصل کرکے انٹرنیشنل فلائٹ (International Flight) پکڑ سکے گا‘۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اس طرح تجارت پیشہ افراد وقت کی بچت کی غرض سے ڈومیسٹک فلائٹ کے ذریعے اسلام آباد اور لاہور وغیرہ جلد پہنچ جایا کریں گے۔ سوات سے ہر روز تقریباً 10 بسیں لاہور کے لیے نکلتی ہیں جن میں تجارت پیشہ افراد کی تعداد دیگر افراد سے زیادہ ہوتی ہے۔ سیاحوں کو وقت کی کمی کا سامنا ہوتا ہے اور وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ جگہیں دیکھنے کے آرزو مند ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر سیدو شریف ایئرپورٹ کھلتا ہے تو اس کا فائدہ سیاحوں کو بھی ہوگا۔ وہ کم وقت میں پہنچ کر زیادہ وقت سوات میں گزارنے کو ترجیح دیں گے۔ نتیجتاً ایئرپورٹ میں لوگوں کو روزگار مل جائے گا، ٹیکسی ڈرائیوروں کو سواریاں مل جائیں گی اور بازاروں میں سیاحوں کی چہل پہل سے رونق رہے گی۔ مقامی بازار میں خریداری میں اضافہ ہوگا اور یوں سوات کی معیشت پر اس کا مثبت اثر پڑے گا‘۔
الحاج زاہد خان حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سوات آنے والی پروازیں روزانہ کی بنیاد پر ہوں اور یہ انٹرنیشنل پروازوں کے ساتھ نتھی ہوں، تو یہ اہلِ سوات کے لیے فائدے کا سبب بنیں گی۔
دوسری طرف ٹریول ٹریڈ سے پچھلے 40 سال سے وابستہ سیاسی و سماجی شخصیت افضل شاہ ایک الگ نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ماضی میں جو پرواز سوات کے لیے مختص ہوتی تھی، اس کے لیے فوکر جہاز اڑان بھرا کرتا تھا۔ فوکر میں 42 نشستیں ہوتی ہیں۔ اگر جہاز مکمل طور پر بھرا ہوا ہو تب بھی اس کے ایندھن کا خرچہ پورا نہیں ہوپاتا۔ یوں سمجھ لیں کہ سوات، اسکردو، چترال، پسنی اور گوادر ایسے روٹ ہیں جہاں پی آئی اے کی پروازیں حکومت کی سبسڈی کی وجہ سے چلتی ہیں۔ یہ ایک طرح سے حکومتی خزانے پر بوجھ ہوتی ہیں۔ اگر ان پروازوں کا فائدہ ہوتا، تو دیگر ائیر لائنیں سامنے آتیں اور اپنا حصہ ڈال کر فائدہ حاصل کرتیں‘۔
ان متضاد آرا کی روشنی میں اہلِ سوات پھر بھی امید رکھتے ہیں کہ سیدو شریف ایئرپورٹ ان کے لیے وقت کی بچت اور فائدے کا باعث بنے گا۔ کئی افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی ایئر پورٹ کھلنے سے متعلق خبریں اور دعوے کیے گئے ہیں، مگر نتیجہ مرغی کی وہی ایک ٹانگ ہی نکلا ہے۔
سو دیکھتے ہیں کہ اب کی بار اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟
تبصرے (1) بند ہیں