ترقیاتی فنڈز کیس: سپریم کورٹ کے 11 فروری کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواستیں دائر
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کے معاملے پر سپریم کورٹ کے 11 فروری کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواستیں دائر کردی گئیں۔
نظر ثانی کی درخواستیں کوئٹہ بار ایسوسی ایشن اور بلوچستان بار نے دائر کی ہیں جس میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کا 11 فروری کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وزیراعظم سے متعلق کیس کی سماعت نہ کریں، سپریم کورٹ
درخواستوں میں استدعا کی گئی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دی گئی آبزرویشنز فیصلے سے ختم کی جائیں اور نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے تشکیل دیے گئے بینچ میں جسٹس مقبول باقر کو شامل کیا جائے۔
درخواستوں میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ کسی جج کو رائے دینے سے نہیں روکا جاسکتا اور چیف جسٹس سمیت کوئی جج دوسرے جج کو ہدایت نہیں دے سکتا۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو وزیر اعظم کے خلاف مقدمات سننے سے روکنا غیر آئینی ہے اور وزیر اعظم کے ارکان اسمبلی کو فنڈز جاری کرنے کے معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیر اعظم کے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کے بیان کا نوٹس لیا تھا اور چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے 11 فروری کو مقدمہ ختم کر دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کے دستخط شدہ جواب میں خبر کی تردید، عدالت نے ترقیاتی فنڈز کیس نمٹادیا
جسٹس قاضی فائز عیسی نے اس فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 27 جنوری کو پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قانون سازوں کا اپنے حلقوں کے لیے ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کا دیرینہ مطالبہ پورا کیا تھا۔
وزیراعظم نے پائیدار ترقی کے اہداف کے تحت ہر رکن قومی اور صوبائی اسملبی کے لیے 50 کروڑ روپے کی گرانٹ کا اعلان کیا تھا تاکہ وہ اپنے ووٹرز کے لیے ترقیاتی اسکیمیں شروع کرسکیں۔
بعد ازاں 3 فروری کو ایک کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے ہر رکن اسمبلی کو 50 کروڑ روپے کی ترقیاتی گرانٹ دینے کی اخباری خبر کا نوٹس لیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مقبول باقر کی 2 رکنی بینچ نے 4 صفحات پر مشتمل حکم نامہ لکھا تھا آئین کی دفعہ 5(2) جو بتاتی ہے کہ آئین اور قانون کی اطاعت ہر شہری کی ناقابل قبول ذمہ داری ہے اور دفعہ 204(2) جو سپریم کورٹ کو عدالتی حکم کی پاسداری نہ کرنے والے شخص کو سزا دینے کا اختیار دیتی ہے، کا حوالہ دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: ترقیاتی فنڈز کیس: لگتا ہے وزیراعظم نے عدالتی فیصلہ ٹھیک سے نہیں پڑھا، جسٹس عیسیٰ
اس کیس کے ابتدائی حکم نامے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ قومی اخبارات بشمول معتبر روزنامے ڈان میں 28 جنوری 2021 کو 'ہر قانون ساز کیلئے 50 کروڑ روپے کی گرانٹ کی منظوری' کی ہیڈ لائن کے تحت یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں جس میں ایک وزیر کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ وزیراعظم نے رکن قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے 50 کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ہے تاکہ وہ اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کرواسکیں۔
اسی طرح یکم فروری کو اسی اخبار نے 'ترقیاتی فنڈز کے عنوان سے ایک اداریہ لکھا جس میں وزیراعظم کی جانب سے اپنی پارٹی کے ہر رکن قومی و صوبائی اسمبلی کو ان کے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے نصف ارب روپے دینے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔
ترقیاتی فنڈز پر لیے گئے نوٹس کی پہلی سماعت میں وزیراعظم کے سیکریٹری کی جانب سے جمع کروائے گئے خط کو سپریم کورٹ نے مسترد کردیا تھا اور وزیراعظم کے دستخط کے ساتھ سیکریٹری خزانہ سے فنڈز سے متعلق واضح جواب طلب کیا تھا۔
مقدمے کی اگلی سماعت پر سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کے دستخط شدہ جواب پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کے ارکان اسمبلی کو فنڈز دینے کے خلاف پیپلز پارٹی کی درخواست مسترد
12 فروری کو اس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وزیراعظم سے متعلق کیسز کی سماعت نہ کریں کیونکہ انہوں نے وزیر اعظم کے خلاف کیس کررکھا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ غیر جانب داری کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وزیراعظم سے متعلق کوئی بھی مقدمہ نہ سنیں۔