پشاور ہائیکورٹ نے ٹک ٹاک پر پابندی سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کردیا
شارٹ ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک پر پابندی سے متعلق پشاور ہائی کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ ٹک ٹاک پر کسی پابندی کے بغیر فحش اور قابل اعتراض مواد اپلوڈ کیا جارہا ہے جو اسلامی اقدار اور اخلاقیات کے منافی ہے لہذا ایسے مواد کو فلٹر کرنے کا طریقہ کار نہ ہونے تک ملک میں ایپ پر پابندی برقرار رہے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ٹک ٹاک کے خلاف درخواست کے تفصیلی فیصلے میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس قیصر رشید خان اور جسٹس محمد ناصر محفوط پر مشتمل بینچ نے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو ملک بھر میں اس وقت تک چینی ایپ پر پابندی لگانے کا حکم دیا تھا جب تک اس کے مواد، جو غیر اخلاقی اور فحش ہے اور سماجی اقدار کے خلاف ہے، کو فلٹر کرنے کا طریقہ کار نہیں متعارف ہوجاتا۔
عدالت نے اس ضمن میں پیشرفت سے متعلق پی ٹی اے سے 6 اپریل کو رپورٹ طلب کی ہے اور اس وقت تک درخواست پر سماعت ملتوی کردی ہے۔
مزید پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ کا ملک بھر میں ٹک ٹاک بند کرنے کا حکم
پشاور ہائی کورٹ میں دائر کردہ مشترکہ درخواست میں پشاور کے 40 رہائشیوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ پی ٹی اے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سمیت فریقین کو آئینی شقوں کی خلاف ورزی پر ملک میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کی ہدایت کرے، جو اسلامی ضابطہ حیات کے منافی کاموں کی اجازت نہیں دیتیں۔
11 مارچ کے عدالتی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پی ٹی اے نے انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ فوری طور پر صارفین ٹک ٹاک تک رسائی روک دیں، اس وقت ملک میں یہ ایپ ناقابل رسائی ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ 'گزشتہ سماعت میں، نوجوان نسل بالخصوص نو عمر افراد کی جانب سے ٹک ٹاک کے غلط استعمال کے سنگین مسئلے کے تناظر میں، جہاں فحش، بیہودہ، غیر اخلاقی اور قابل اعتراض مواد تصاویر اور ویڈیوز کی صورت میں کسی پابندی کے بغیر اپلوڈ کیا جارہا ہے، جو اسلامی اقدار اور اخلاقیات کے خلاف ہے، ہم نے تمام متعلقہ حلقوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ مل کر بیٹھیں اور جلد از جلد ایسے مواد کی جانچ کے لیے ایک ایسا طریقہ/فارمولہ تشکیل دیں اور عدالت میں پیش ہوں'۔
یہ بھی پڑھیں: عدالتی حکم: پی ٹی اے نے 'ٹک ٹاک' ایپ بلاک کرنے کی ہدایات جاری کردیں
عدالتی بینچ نے فیصلے میں مزید کہا کہ 'پی ٹی اے کے ڈائریکٹر جنرل کامران خان نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ یہ معاملہ متعدد مرتبہ سنگاپور میں متعلقہ ہیڈکوارٹرز کے ساتھ اٹھایا گیا لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے'۔
عدالت نے مزید کہا کہ 'چونکہ مقامی سطح پر ٹک ٹاک کا دفتر موجود نہیں ہے لہذا وہ غیر اخلاقی اور قابل اعتراض مواد کی اپلوڈنگ کو کنٹرول کرنے یا اس پر پابندی لگانے میں خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں سوائے اس کے کہ اس ایپ پر پابندی لگادی جائے یا اس معاملے کو ختم کیا جائے'۔
عدالتی بینچ نے کہا کہ درخواست پر دلائل کے دوران درخواست گزاروں نے مزید کچھ نازیبا مواد پیش کیا تھا جو بہت بے خوفی سے اپلوڈ کیا جارہا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ 'اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بظاہر تفریح کے لیے صرف ایک ایپ ہے لیکن ایک عرصے کے دوران یہ نشے کی حیثیت اختیار کرچکی ہے جس کا شکار زیادہ تر نوجوان نسل ہوئی ہے'۔
عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ٹک ٹاک سے متاثر ہوکر ملک میں کچھ نو عمر نے خود کشی بھی کی۔
فیصلے میں عدالتی بینچ نے کہا کہ ایسی سرگرمیوں کی وجہ سے کچھ اسلامی ممالک میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد ہے اور دیگر ممالک میں بھی اس ایپ پر پابندی ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد
درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک ایپ پر شیئر ہونے والا مواد آئینِ پاکستان کے خلاف ہے جو شہریوں کی سماجی اور اخلاقی تندرستی کی ضمانت دیتا ہے۔
مذکورہ درخواست میں سیکریٹری داخلہ کے ذریعے فیڈریشن آٖف پاکستان، وزارت قانون و انصاف، چیئرمین پی ٹی اے، پی ٹی اے اور ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو فریق بنایا گیا تھا۔
درخواست گزاروں کے وکلا نازش مظفر اور سارہ علی خان نے کہا کہ چینی کمپنی بائیٹ ڈانس نے 2016 میں متنازع ایپ لانچ کی تھی اور اسے دنیا بھر میں متعارف کرایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایک اسلامی ملک ہونے کی حیثیت سے اگر اس ایپ پر پاکستان میں مکمل پابندی نہیں عائد ہوسکتی تو کم از کم نامناسب مواد کی حد تک پابندی عائد ہونی چاہیے۔
خیال رہے کہ 11 مارچ کو پشاور ہائی کورٹ نے ٹک ٹاک کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ایپ کو ملک بھر میں بند کرنے کا حکم دیا تھا۔
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ قیصر رشید خان نے ٹک ٹاک کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ ٹک ٹاک پر جو ویڈیوز اپ لوڈ ہوتی ہے وہ ہمارے معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹک ٹاک پر پابندی کے عدالتی فیصلے کی بھاری قیمت عوام ادا کریں گے، فواد چوہدری
جس کے بعد پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے عدالت کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ٹک ٹاک کو بلاک کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔
پی ٹی اے نے کہا تھا کہ 'پشاور ہائیکورٹ کے احکامات کی روشنی میں اتھارٹی نے سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کو فوری طور پر ٹک ٹاک ایپ بلاک کرنے کی ہدایات جاری کردیں'۔
دوسری جانب ٹک ٹاک نے پاکستان میں سروس کی بندش کے حوالے سے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ 'ایپ میں شرائط و ضوابط اور کمیونٹی گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی کرنے والے مواد کا بغور جائزہ لیا جاتا ہے اور مواد کے جائزے کے لیے مختلف ٹیکنالوجیز اور ماڈریشن اسٹریٹجی استعمال کی جاتی ہیں'۔
خیال رہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی نے گزشتہ برس 9 اکتوبر کو فحش مواد کو نہ ہٹائے جانے پر ٹک ٹاک کو ملک بھر میں بند کردیا تھا جسے بعدازاں ٹک ٹاک انتظامیہ کی یقین دہانی پر بحال کیا گیا تھا۔