کووڈ 19 سے کن افراد کو سنگین بیماری اور موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے؟
نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے حوالے سے ایک سوال کا جواب اس وبا کے آغاز سے جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کچھ افراد میں اس کی شدت بہت زیادہ جبکہ بیشتر میں معمولی کیوں ہوتی ہے اور اس کا خطرہ کن لوگوں کو زیادہ ہوتا ہے۔
اب اس کا ممکنہ جواب سامنے آیا ہے کہ کن افراد میں اس بیماری کی سنگین شدت اور موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
درحقیقت سست رفتاری سے چلنے کے عادی افراد میں کووڈ 19 سے موت کا خطرہ لگ بھگ 4 گنا جبکہ سنگین حد تک بیمار ہونے کا امکان 2 گنا سے زیادہ ہوتا ہے۔
یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
لیسٹرشائر یونیورسٹی کی اس تحقیق میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 4 لاکھ 12 ہزار سے زیادہ درمیانی عمر کے افراد کو شامل کیا گیا تھا۔
ان افراد کے جسمانی وزن اور چلنے کی رفتار کا موانہ کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے اور موت کے خطرے سے کیا گیا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ تیز رفتاری سے چلنے والوں کے مقابلے میں نارمل وزن کے حامل سست روی سے چلنے والے افراد میں کووڈ 19 کی شدت سنگین ہونے اور موت کا خطرہ بالترتیب ڈھائی گنا اور 3.75 گنا زیادہ ہوتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ہم یہ پہلے سے جانتے ہیں کہ موٹاپا کووڈ 19 کے نتائج کو بدترین بنانے والا عنصر ہے، مگر یہ پہلی تحقیق ہے جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ سست روی سے چلنے والے افراد میں بیماری کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، چاہے وزن جتنا بھی ہو۔
انہوں نے کہا کہ وبا کے نتیجے میں طبی سروسز اور برادریوں پر دباؤ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے، اس لیے ان افراد کی شناخت کرنا بہت ضروری ہے جن کو اس بیماری سے بہت زیادہ خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ تیز رفتاری سے چلنے والے موٹاپے کے افراد میں اس بیماری کی زیادہ شدت اور موت کا خطرہ سست روی سے چلنے والے لوگوں سے کم ہوتا ہے۔
تاہم جسمانی وزن زیادہ ہو اور چلنے کی رفتار بھی کم ہو تو یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہمارے خیال میں عوامی صحت اور تحقیقی رپورٹس میں جسمانی وزن کے ساتھ جسمانی فٹنس کے عام اقدامات جیسے چلنے کی رفتار کو شامل کرنے پر غور کیا جانا چاہیے، کیوننکہ یہ کووڈ 19 کے شکار ہونے پر نتائج کی پیشگوئی کرنے والے عناصر ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے انٹرنیشنل جرنل آف اوبیسٹی میں شائع ہوئے۔
تحقیق میں شامل افراد برطانیہ سے تھا اور بیماری کے نتائج کا تجزیہ وہاں وبا کی پہلی لہر کے دوران کیا گیا۔