حق مہر میں 'ایک لاکھ روپے کی کتابیں' لینے والی خیبرپختونخوا کی دلہن
چار برس قبل جنوری 2017 میں جب پاکستانی اداکارہ یاسرہ نے شادی کے موقع پر حق مہر میں شوہر سے پیسوں کے بجائے فجر کی نماز پڑھنے کا مطالبہ کیا تھا تو اس پر کئی لوگوں نے حیرانی کا اظہار کیا تھا۔
کئی افراد نے یاسرہ رضوی کے اس اقدام پر انہیں سراہا تھا اور ایسے بہت سے لوگ تھے جنہوں نے ان پر تنقید بھی کی تھی۔
حال ہی میں ایسی ہی ایک اور منفرد شادی پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع مردان میں انجام پائی ہے جس میں دلہن نے نقدی یا زیورات کے بجائے حق مہر میں کتابیں مانگیں۔
نائلہ شمال صافی نامی دلہن کی شادی دو روز قبل 14 مارچ کو ہوئی اور حیران کن طور پر ان کے شادی کے دعوت نامے پر ان کا نام اور تصویر بھی موجود ہے۔
اس منفرد حق مہر کا مطالبہ کرنے والی دلہن نائلہ شمال صافی چارسدہ کے علاقے 'تنگی' جبکہ ان کے شوہر ڈاکٹر سجاد ژوندون مردان کے علاقے ’بھائی خان‘ کے رہائشی ہیں۔
نائلہ شمال صافی ان دنوں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں جبکہ ان کے شوہر سجاد ژوندون نے پشتو زبان میں پی ایچ ڈی مکمل کی ہے۔
ان کے نکاح نامے میں حق مہر کی رقم کے خانے میں لکھا گیا ہے کہ ’ایک لاکھ روپے پاکستانی رائج الوقت مالیت کی کتب'۔
بی بی سی کی اردو سروس کو بذریعہ ٹیلی فون دیے گئے انٹرویو میں نائلہ شمال صافی نے بتایا کہ جب ان کے سامنے نکاح نامہ رکھا گیا اور پوچھا گیا کہ حق مہر کیا اور کتنا چاہیے تو انہوں نے ایک لاکھ پاکستانی روپے کی کتابیں مانگیں'۔
انہوں نے بتایا کہ یہ سننے کے بعد مجھے 10 سے 15 منٹ کا وقت دیا گیا کہ سوچ لو اور پھر بتانا، انہوں نے کہا کہ 'میں نے سوچا مگر اس سے اچھا کوئی اور حق مہر میرے ذہن میں نہیں آیا'۔
نائلہ شمال صافی کہتی ہیں کہ انہوں نے سجاد ژوندون کے ساتھ ساتھ کتابوں سے بھی رشتہ جوڑ لیا ہے۔
اس منفرد حق مہر پر سہیلیوں یا رشتہ داروں کے ردعمل سے متعلق سوال پر نائلہ شمال نے بتایا کہ 'سب نے ہمارے اس اقدام کو سراہا'۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ولیمے کی دعوت میں میرے والدین سمیت بہت سے رشتہ دار آئے تھے اور سب خوش تھے۔
نائلہ شمال نے کہا کہ میرے بیڈ روم اور ایک دوسرے کمرے میں بہت ساری کتابیں موجود ہیں، یہ وہ کتابیں ہیں جو میں نے حق مہر میں اپنے خاوند سے مانگی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ کتابیں الماریوں میں اوپر رکھ دیں لیکن بہت ساری اب بھی کارٹن میں بند ہیں، شادی کی رسومات سے فارغ ہو کر پھر ان کتابوں کو سنبھالوں گی۔
بی بی سی سے بات چیت میں ڈاکٹر سجاد ژوندون نے کہا کہ جب انہوں نے اپنی منگیتر کے حق مہر سے متعلق سنا تو بہت خوشی ہوئی کہ ایسا کرنے سے حق مہر میں مانگی جانے والی زیادہ رقوم کے رواج کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔
ڈاکٹر سجاد ژوندون نے کہا کہ ’رائج رسم و رواج کے خلاف جب پہلا قدم اٹھایا جاتا ہے تو یقیناً انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ہمارے اس اقدام کو ابھی تک سب نے سراہا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب دنیا بہت آگے جا چکی ہے، اسی لیے ہمیں بھی آگے چلنا چاہیے۔
سجاد ژوندون نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں اکثر حق مہر میں لڑکے والوں سے 10 سے 20 لاکھ روپے مانگے جاتے ہیں جبکہ جہیز میں مختلف اقسام کی فرمائشیں کی جاتی ہیں۔
نوبیاہتا جوڑے کے مطابق ان روایات کو ختم کرنے کے لیے کسی کو تو پہل کرنی ہوگی اور وہ انہوں نے کردی۔
ڈاکٹر سجاد ژوندون کے مطابق جہاں بہت سارے لوگ کسی اچھے کام کو سراہتے ہیں تو وہاں ان کے مخالفین بھی موجود ہوں گے لیکن ابھی تک ان کے اس اقدام کی مخالفت کسی نے نہیں کی۔
خیبرپختونخوا سمیت پاکستان اور افغانستان کے کئی علاقوں میں عموماً شادی کے دعوت نامے پر صرف دلہے کا نام اور دلہن کے والد کا نام لکھا جاتا ہے۔
تاہم ڈاکٹر سجاد ژوندون نے شادی کے دعوت نامے پر نہ صرف دلہن کا نام لکھا بلکہ اس پر دونوں کی تصاویر بھی موجود ہیں۔
دعوت نامے پر موجود تصاویر میں دلہن کی تصویر، دلہے کی تصویر کے مقابلے میں ذرا بڑی نظر آرہی ہے۔
ڈاکٹر سجاد ژوندون کے قریبی دوست عمران آشنا، جو ان کی شادی میں شریک بھی ہوئے تھے، ان کے مطابق اس شادی نے ایک بار پھر اس تاثر کو رد کیا کہ کتابوں کے چاہنے والے اب موجود نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس حق مہر کے ذریعے یہ پیغام بھی دیا گیا کہ کتاب سے محبت اب بھی ہے اور یہ محبت ختم نہیں ہوئی۔
تبصرے (1) بند ہیں