چیف الیکشن کمشنر، اراکین صرف سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے ہٹائے جاسکتے ہیں
اسلام آباد: متعلقہ آئینی شقوں کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے اراکین کو صرف سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے ہٹایا جاسکتا ہے جس کے لیے حکومت کے پاس واحد راستہ ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئین کی دفعہ 215(2) کے تحت کمشنر یا کوئی رکن اپنے عہدے سے سوائے اس صورت کے نہیں ہٹایا جائے گا جو آرٹیکل 209 میں کسی جج کے عہدے سے علیحدگی کے لیے مقرر ہے اور اس شق کے اغراض کے لیے اس آرٹیکل کے اطلاق میں مذکورہ آرٹیکل میں جج کا کوئی حوالہ کمشنر یا جیسی بھی صورت ہو کسی رکن کے حوالے کے طور پر سمجھا جائے گا۔
خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان کرتے ہیں اور عدالت عظمیٰ کے 2 سب سے سینئرز ججز اور ہائی کورٹ کے 2 چیف جسٹس اس کا حصہ ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کے اراکین مستعفی ہوں اور نیا کمیشن بنایا جائے، حکومت
آئین کی دفعہ 209(5) (ب) کے مطابق 'اگر کسی ذریعے سے اطلاع ملنے پر کونسل یا صدر کی یہ رائے ہو کہ عدالت عظمٰی یا کسی عدالت عالیہ کا کوئی جج بدعنوانی کا مرتکب ہوا ہو تو صدر کونسل کو ہدایت کرے گا یا کونسل خود اپنی تحریک پر معاملے کی تحقیقات کرسکے گی'۔
دفعہ 209 (6) کے تحت 'اگر معاملے کی تحقیقات کرنے کے بعد کونسل صدر کو رپورٹ پیش کرے کہ اس کی رائے یہ ہے کہ جج اپنے عہدے کے فرائض منصبی کی انجام دہی کے ناقابل ہے یا بدعنوانی کا مرتکب ہوا ہے اور اسے عہدے سے برطرف کردینا چاہیے تو صدر اس جج کو عہدے سے برطرف کرسکے گا'۔
اسی طرح آئین کی دفعہ 209 (7) کہتی ہے کہ 'عدالت عظمیٰ یا کسی عدالت عالیہ کے کسی جج کو بجز جس طرح اس آرٹیکل میں قرار دیا گیا ہے عہدے سے برطرف نہیں کیا جائے گا'۔
اس کے باوجود سینیٹ الیکشن شفاف طریقے سے کرانے میں ای سی پی کی مبینہ ناکامی پر حکومت کی جانب سے کمیشن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں:الیکشن کمیشن نےملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے، وزیر اعظم
اس ضمن میں جب الیکشن کمیشن کے ایک سینئر عہدیدار سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کے استعفے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن پر 'ووٹوں کو قابل شناخت بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال میں ناکامی پر تنقید کرنا آئین کی دفعہ 226 کی خلاف ورزی ہے جو خفیہ رائے شماری سے متعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نہ تو آئین دوبارہ لکھ سکتا ہے نہ ہی اس میں ترمیم کرسکتا ہے، کمیشن آئین و قانون پر سختی سے عمل جاری رکھے گا۔
کچھ ناقدین کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف حکومت کی مہم کا سینیٹ الیکشن سے کچھ خاص لینا دینا نہیں ہے اور اسے صرف فارن فنڈنگ کیس کے سلسلے میں کمیشن پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھی: وزیراعظم کے دستخط شدہ جواب میں خبر کی تردید، عدالت نے ترقیاتی فنڈز کیس نمٹادیا
ناقدین نے مزید کہا کہ حکومت چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کے لیے خود اپنے منتخب کردہ سکندر سلطان راجا کو نشانہ بنا رہی ہے کیوں کہ ان کے کچھ فیصلے اس کے لیے ہزیمت کا باعث بنے۔
ناقدین کے مطابق الیکشن کمیشن ملک بھر میں بلدیاتی انتخاب کروانا چاہتا ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اس کے اتحادی مقامی انتخابات میں اپنی ٹانگ اڑانا چاہتے ہیں اور ڈسکہ میں پریزائڈنگ افسران کی گمشدگی کے باعث دوبارہ ضمنی انتخاب کے انعقاد سے حکومت مزید خفا ہوئی۔