الیکشن کمیشن کے اراکین مستعفی ہوں اور نیا کمیشن بنایا جائے، حکومت
حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن پر سینیٹ انتخابات میں فرائض کی انجام دہی میں ناکامی کا الزام عائد کرتے ہوئے کمیشن کے اراکین سے مستعفی ہونے اور نئے کمیشن کے قیام کا مطالبہ کردیا۔
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے وفاقی وزرا شبلی فراز اور فواد چوہدری کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج شہباز گل کے ساتھ جو ہوا ہے، اگر یہ اسی طرح چلتا رہا تو سیاست ایک حد سے بڑھ کر تشدد پر آ جائے گی اور اس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: 'سینیٹ انتخابات کو چوری کیا گیا'
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ وہ سیاست کو کس طرف لے جانے کی کوشش کررہے ہیں، اس کلچر کو فروغ دینے کا جو وطیرہ بنایا گیا ہے اس کو ختم کریں اور سیاست کو سیاست سمجھ کر کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان کا بڑے عرصے سے یہ مطالبہ تھا کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں پیسے وغیرہ کی سرگرمیاں ختم ہوں تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ 2015 میں جب نواز شریف نے اوپن بیلٹ کا قانون لانے کی کوشش کی تو وزیراعظم نے مسلم لیگ (ن) سے سیاسی اختلافات کے باوجود اس کا خیرمقدم کیا کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری سیاست صاف و شفاف ہو۔
انہوں نے کہا کہ 2018 میں پھر منڈیاں لگیں اور تحریک انصاف واحد پارٹی ہے جس نے اپنے اراکین کے خلاف ایکشن لیا جن کے بارے میں پتا چلا کہ انہوں نے پیسے کی لین دین کی۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات میں خرید و فروخت پر نظام انصاف نے بھی ایکشن نہیں لیا، وزیراعظم
ان کا کہنا تھا کہ 2021 کے سینیٹ انتخابات کے لیے ہم نے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا جس پر اعلیٰ عدلیہ نے کہا کہ اگر آپ نے ووٹنگ کا طریقہ کار بدلنا ہے تو اس کے لیے آئینی ترمیم ہونی ضروری ہے لیکن انہوں کچھ اور بھی ہدایت اور 218 (3) کا حوالہ دیا جو اس بارے میں بڑی واضح ہے۔
وزیر تعلیم نے کہا کہ یہ شق کہتی ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کا یہ فرض ہو گا کہ وہ انتخاب کا انتظام کرے اور اسے منعقد کرائے اور ایسے انتظامات کرے جو اس امر کے اطمینان کے لیے ضروری ہوں کہ انتخاب ایمانداری، حق اور انصاف کے ساتھ اور قانون کے مطابق منعقد ہو اور یہ کہ بدعنوانی کا سدباب ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے چیف الیکشن کمشنر سے وفد کی صورت میں ملاقات کر کے استدعا کی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ووٹ خفیہ رکھنے کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی اور اس کا کوئی ایسا طریقہ ہونا چاہے کہ اگر آپ نے بدعنوان طریقوں کو روکنا ہے تو اس کا کوئی طریقہ بنایا جائے اور استدعا کی کہ اس پر کوئی نشانی آجائے تاکہ اگر ضرورت پڑے تو موقع پر موجود لوگوں کو بے شک نظر نہ آئے لیکن اگر بعد میں ضرورت پڑے تو اس کی تحقیق کی جا سکے لیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کو مسترد کردیا گیا اور کمیٹی بنا کر کہا گیا کہ آئندہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سینیٹ کی جس سیٹ پر اسلام آباد میں الیکشن ہوا، اس میں یوسف رضا گیلانی 169 ووٹ لیتے ہیں اور تحریک انصاف کا امیدوار 164 ووٹ لیتا ہے جبکہ خواتین کی نشست پر 174 اور 164 کا فرق ہے تو صاف ظاہر ہو گیا کہ اس میں بدعنوان طریقوں کا استعمال کیا گیا۔
مزید پڑھیں: جس طرح کے انتخابات پاکستان میں ہوتے ہیں وہ اب ہم نہیں کرسکتے، وزیراعظم
تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ یہ ساری چیزیں عیاں اور الیکشن کمیشن کے سامنے تھیں لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن اس الیکشن کو شفاف بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات کے بعد صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت اس سے خوش نہیں ہے، ہر کوئی تنقید کررہا ہے، کوئی بھی فرد ایسا نہیں ہے جو یہ کہہ رہا ہو کہ یہ الیکشن ٹھیک ہوا ہے اور یہ چیز عمران خان کے مؤقف کی تائید کرتی ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن شفاف ہوں تو اس میں ہمیں ایسا طریقہ اپنانا چاہیے جس سے پیسے کا لین دین ختم ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ناکامی ہے، وہ اپنی ذمے داریوں کو نبھا نہیں سکا، کسی کو الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں رہا تو اس کا حل یہی ہے کہ الیکشن کمیشن موجودہ حالت میں نہیں چل سکتا اور بحیثیت مجموعی استعفیٰ دینا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر کوئی اور طریقہ نہیں ہے کہ جس سے اعتماد بحال ہو سکے۔
وزیر تعلیم نے کہا کہ اگر سیاسی لوگوں اور ملک کے عوام کا الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں ہو گا اور اس کے فیصلوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے موجودہ الیکشن کمیشن کے اراکین اپنی ذمے داریوں سے دستبردار ہو اور استعفیٰ دیں۔
انہوں نے کہا کہ یہی طریقہ ہے کہ جس سے ایک نیا الیکشن کمیشن بنے اور ایک الیکشن کمیشن بنے جس پر اعتماد ہو اور ہمیں یقینی بنانا چاہیے کہ آئندہ جو بھی الیکشن ہو وہ شفاف ہو اور اس پر کوئی آواز نہ اٹھے۔
تبصرے (1) بند ہیں