• KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am

سینیٹ انتخاب میں مسترد ووٹوں کو چیلنج کرنے کیلئے پیپلز پارٹی کی قانونی ٹیم تشکیل

شائع March 14, 2021
اپوزیشن جماعت کی جانب سے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جائے گی۔ 
---فائل فوٹو: ڈان نیوز
اپوزیشن جماعت کی جانب سے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جائے گی۔ ---فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں پائے جانے والے 7 مسترد ووٹوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سینیٹ کے تین سابق چیئرمینز اور ایک سابق گورنر پر مشتمل ٹیم تشکیل دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن جماعت کی جانب سے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: پارلیمان کی کارروائیوں کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا، حکومت

ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی قانونی ٹیم فاروق ایچ نائیک، سید نیئر بخاری، رضا ربانی اور لطیف خان کھوسہ پر مشتمل ٹیم کا کام ختم ہوگیا ہے کیونکہ آئین پارلیمنٹ کی کارروائی کو استثنیٰ فراہم کرتا ہے۔

آئین کے آرٹیکل 69 کی شق ایک میں کہا گیا ہے کہ: ’بے ضابطگی کی بنا پر پارلیمنٹ میں کسی بھی ضابطے کی کارروائی کی صداقت پر سوال نہیں اٹھائے جائیں گے‘۔

اس معاملے پر سینیٹ انتخاب کے پریذائیڈنگ افسر سینیٹر مظفر حسین شاہ نے کہا کہ اپوزیشن پارٹیاں پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران جو کچھ ہوا اس کو چیلنج نہیں کرسکتیں۔

یہ بھی پڑھیں: بلاول نے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اپوزیشن امیدواروں کو ووٹ نہ دینے کا تاثر مسترد کردیا

انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں ضابطہ اخلاق کے قواعد 264 کے تحت چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین یا سینیٹ کے سیکریٹری کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ معاملات میں جہاں قانون خاموش ہے، فیصلہ دے سکے۔

مظفر حسین شاہ نے بتایا کہ پریذائیڈنگ افسر ہونے کے ناطے میں چیئرمین (آف) سینیٹ کے اختیارات استعمال کررہا تھا اور میں نے 7 ووٹوں کو مسترد کرنے کا حکم دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف انتخابی ٹریبونل کے سامنے درخواست دائر کرسکتی ہے۔

تاہم جب رپورٹر نے نشاندہی کی کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب الیکشن ایکٹ کے تحت نہیں ہوئے تو سینیٹر مظفر حسین شاہ نے کہا کہ متاثرہ پارٹی آئین کے آرٹیکل 199 کو مسترد کرکے ہائیکورٹ کے سامنے پٹیشن دائر کرسکتی ہے۔

آئین کا آرٹیکل 199 ملک کی اعلیٰ عدالتوں کو عدالتی جائزہ لینے کے وسیع اختیارات دیتا ہے۔

مزید پڑھیں: سنجرانی چیئرمین اور مرزا آفریدی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب، گیلانی اور عبدالغفور کو شکست

دوسری طرف آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان کو مکمل انصاف نافذ کرنے کا اختیار ہے۔

ذرائع کے مطابق پی پی پی کی قانونی ٹیم قانون کے نکات پر طویل اور سخت غور و فکر کر رہی ہے جو ممکنہ طور پر پٹیشن کی سماعت پر بحث کے دوران سامنے آنے کا امکان ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اپوزیشن اگلے ہفتے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کرسکتی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ ٹیم کے ممبران اس معاملے کے تین پہلوؤں پر توجہ دے رہے ہیں تاکہ اسے بنیادی حقوق کے نفاذ کا مقدمہ بنایا جاسکے۔

ان کا خیال ہے کہ یہ رائے دہندگان کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کا معاملہ ہے۔

مزید پڑھیں: مسترد ووٹ: پی ڈی ایم قیادت سےمشاورت کےبعد عدالت جانے کا فیصلہ کیا ہے، بلاول بھٹو زرداری

قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ ایک درجن سے زائد اعلیٰ عدالتی فیصلوں کی روشنی میں رائے دہندگان کی نیت پر غور کیا جانا چاہیے جس میں ججوں نے ووٹوں کی توثیق کی تھی جو غیر قانونی قرار پائے تھے۔

اپوزیشن کی قانونی ٹیم نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ پریذائیڈنگ افسر کی جانب سے 7 ووٹ مسترد ہونے کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی جائے۔

ذرائع کے مطابق ممکنہ طور پر یہ درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی جائے گی۔


یہ خبر 14 مارچ 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024