• KHI: Fajr 5:36am Sunrise 6:56am
  • LHR: Fajr 5:14am Sunrise 6:39am
  • ISB: Fajr 5:22am Sunrise 6:49am
  • KHI: Fajr 5:36am Sunrise 6:56am
  • LHR: Fajr 5:14am Sunrise 6:39am
  • ISB: Fajr 5:22am Sunrise 6:49am

چیئرمین سینیٹ انتخابات: ووٹر کس جگہ مہر لگائے تو ووٹ مسترد ہوجاتا ہے؟

شائع March 12, 2021 اپ ڈیٹ March 13, 2021
یوسف گیلانی کو 49 ووٹ ملے مگر ان کے 7 ووٹ مسترد کیے گئے—فوٹو: ڈان نیوز
یوسف گیلانی کو 49 ووٹ ملے مگر ان کے 7 ووٹ مسترد کیے گئے—فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں چیئرمین کے انتخابات 12 مارچ کی شام کو ہوئے، جس میں حکومتی امیدوار صادق سنجرانی اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی مد مقابل تھے۔

انتخابات کے لیے سینیٹ میں موجود 98 سینیٹرز کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا تھا۔

چیئرمین کے انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی ہوئی تو صادق سنجرانی کو 48 جب کہ یوسف رضا گیلانی کو 49 ووٹ ملے مگر یوسف رضا گیلانی کے 7 ووٹوں کو غلط جگہ مہر لگائے جانے کی وجہ سے مسترد کیا گیا، جس بنا پر ان کے ووٹوں کی تعداد 42 ہوگئی اور وہ انتخابات ہار گئے۔

یوسف رضا گیلانی کے جن 7 ووٹوں کو مسترد کیا گیا ان سے متعلق پریزائیڈنگ افسر مظفر حسین شاہ نے بتایا کہ انہیں اس لیے مسترد کیا گیا، کیوں کہ ان بیلٹ پیپرز میں یوسف رضا گیلانی کے نام کے اوپر مہر لگی ہوئی تھی۔

# یہ بھی پڑھیں: صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ منتخب، یوسف رضا گیلانی کو شکست

پریزائیڈنگ افسر کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق ووٹر امیدوار کے خانے میں مہر لگانی ہوتی ہے۔

تاہم انتخاب لڑنے والے یوسف رضا گیلانی نے پریزائیڈنگ افسر کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے الیکشن ٹریبیونل میں جانے کا اعلان کردیا۔

پریزائیڈنگ افسر کی جانب سے 7 ووٹوں کو مسترد کیے جانے پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما فاروق ایچ نائک نے بھی پریزائیڈنگ افسر کے دعووں کو مسترد کیا۔

فاروق ایچ نائک کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے قوانین میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ ووٹر کو کس جگہ مہر لگانی ہے؟

یوسف رضا گیلانی کے خانے کے بجائے ان کے نام پر مہر لگائے جانے سے 7 ووٹوں کو مسترد کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی مذکورہ معاملہ بحث کا موضوع رہا اور کئی لوگوں نے الیکشن کمیشن کے قوانین بھی شیئر کیے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پرویز رشید نے ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق ہدایات کا ایک پوسٹر جاری کیا، جس میں ووٹر کو بتایا گیا ہے کہ انہیں امیدوار کے خانے میں مہر لگانی ہے۔

مذکورہ پوسٹر میں ووٹر کو ہدایت کی گئی کہ ووٹر اس بات کا خیال رکھے کہ مہر کا نشانہ کسی دوسرے خانے یا بیلٹ پیپر کی کسی بھی دوسری جگہ پر نہ لگے، کیوں کہ ایسا کرنے سے ووٹ مسترد ہوجائے گا۔

سندھ کے وزیر سعید غنی نے بھی مذکورہ پوسٹر کو شیئر کیا جب کہ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بھی ووٹ کاسٹ کرنے کی ہدایات شیئر کیں اور بتایا کہ مذکورہ ہدایات الیکشن کمیشن کی ہیں۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر کی جانب سے شیئر کی گئی ہدایات کے مطابق اگر بیلٹ پیپر پر دوسری جگہ مہر لگ بھی جائے تاہم اگر وہ امیدوار کے خانے میں بھی لگائی جائے گی تو بھی ووٹ کو تسلیم کیا جائے گا۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر کی جانب سے شیئر کی گئی ہدایات کے مطابق اگر کوئی ووٹر امیدوار کے نام، نشانات یا ان کے خانے سمیت مختلف جگہوں پر مہر لگاتا ہے تو بھی ووٹ کو تسلیم کیا جائے گا۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر اور پرویز رشید کی جانب سے شیئر کی گئی ہدایات میں اگرچہ فرق ہے، تاہم دونوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ووٹر چاہے امیدوار کے نام یا ان کے نشان یا ان کے خانے میں کسی بھی جگہ مہر لگائے گا تو اس ووٹ کو تسلیم کیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024