سندھ ہائی کورٹ نے 6 ڈی آئی جیز کا صوبے سے باہر تبادلہ روک دیا
کراچی: وفاقی و صوبائی حکام کی جانب سے رائے دینے کے لیے مزید وقت طلب کرنے پر سندھ ہائیکورٹ نے صوبے سے سندھ پولیس کے 6 ڈپٹی انسپکٹر جنرلز کے حالیہ تبادلے معطل کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست گزار نے دعوٰی کیا کہ 20 گریڈ کے 21 ڈی آئی جیز ہیں جو پروموشن کی پالیسی 2020 کے خلاف 10 سال سے زیادہ عرصے سے سندھ حکومت کے ماتحت کام کر رہے ہیں لیکن ان میں سے صرف 6 کا تبادلہ ہوا ہے۔
جسٹس محمد شفیع صدیقی کی سربراہی میں دو ججز کے بینچ نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزار کے وکیل کی طرف سے اٹھائے گئے نکات پر غور کرنا ضروری ہے اور جہاں فریقین کی طرف سے رائے دائر نہیں کی گئی ہے اس کے لیے منتقلی کا نوٹی فکیشن معطل رہے گا۔
مزید پڑھیں: پنجاب میں سینئر پولیس افسران کے تبادلے جاری
واضح رہے کہ ایڈووکیٹ راشد بوہیو نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکریٹری اور محکمہ داخلہ سندھ کے سیکریٹری کو فریق بنایا تھا اور ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے سندھ میں خدمات انجام دینے والے 21 ڈی آئی جیز کی فہرست بھی پیش کی تھی۔
درخواست گزار کے وکیل صلاح الدین احمد نے استدلال کیا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے اگست 2020 میں پولیس افسران کے تبادلے اور پوسٹنگ کے بارے میں پروموشن پالیسی کو نوٹیفائی کیا تھا۔
انہوں نے اس پالیسی کے ضابطہ 5 (سی) پر انحصار کیا جو ایک جگہ پر طویل، مستقل مدت کے لیے خدمات انجام دینے والے افسران کے تبادلے پر باقاعدہ عمل درآمد کرواتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کے تحت 10 سال سے زیادہ عرصے سے خدمات انجام دینے والے افسران کو 6 ماہ کے دوران تین مراحل میں دوسرے صوبائی حکومتوں میں منتقل کیا جانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: 'آئی جی سندھ کا تبادلہ بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کی تیاری ہے'
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ پالیسی کے مطابق اس وقت سندھ میں خدمات سرانجام دینے والے 21 ڈی آئی جیز میں سے فہرست میں شامل پہلے 7 افسران (جو سندھ میں گزشتہ 17 سے 22 سال سے مسلسل خدمات انجام دے رہے ہیں) کو پہلے مرحلے میں تبدیل کیا جانا چاہیے اور پھر اگلے سات اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رکھا جانا چاہیے۔
تاہم وکیل نے استدعا کی کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے پولیس میں خدمات دینے والے 6 ڈی آئی جیز کو پالیسی کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹرانسفر کیا تھا اور طے شدہ پالیسی پر عمل کرنے کی بجائے منتخب کرنے کا طریقہ اپنایا گیا تھا۔
انہوں نے استدلال کیا کہ اس پالیسی کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کے سپریم کورٹ کے 1995 کے فیصلے پر انحصار کیا گیا۔
مزید پڑھیں: آئی جی پنجاب کا تبادلہ لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج
درخواست کی گزشتہ سماعت میں بینچ نے فریقین، وفاقی اور صوبائی قانونی افسران کو نوٹسز جاری کیے تھے۔
تاہم حالیہ سماعت کے آغاز پر ڈپٹی اٹارنی جنرل اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے پیرا کے حساب سے رائے دینے کے لیے مزید وقت طلب کیا۔