پی ڈی ایم نے سینیٹ چیئرمین کیلئے یوسف رضا گیلانی کو مشترکہ امیدوار نامزد کردیا
اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے لانگ مارچ کے قافلے 30 مارچ کو اسلام آباد پہنچنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں انٹیلی جنس اداروں کا یہی رویہ رہا تو ہم تمام حقائق منظر عام پر لانے پر مجبور ہوں گے۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم سربراہی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اجلاس میں پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی جبکہ نواز شریف، آصف علی زرداری اور احسن اقبال ویڈیولنک کے ذریعے شریک تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اجلاس نے متفقہ طور پر یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ کی چیئرمین شپ کے لیے امیدوار نامزد کردیا ہے، ڈپٹی چیئرمین سیینٹ اور سینیٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن کےلیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس کا اجلاس کل ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کمیٹی شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں کل اپنا اجلاس منعقد کرے گی جس میں افتخار حسین، ڈاکٹر جمالدینی، طاہر بزنجو، عثمان کاکڑ، اکرم خان درانی، راجا پرویز اشرف اور حافظ عبدالکریم شرکت کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کا امیدوار بنانے کا اعلان
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ چند روز قبل پارلیمنٹ لاجز کے سامنے جب مسلم لیگ (ن) کے قائدین میڈیا سے بات کر رہے تھے تو اس وقت پی ٹی آئی کے غنڈوں نے ان پر حملہ کیا اور ملک کے انتہائی محترم اور باوقار سیاسی قائدین کی توہین و تذلیل کرنے کی کوشش کی۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کے مریم اورنگ زیب کے آنچل کو سبوتاژ کرنے اور تار تار کرنے کی کوشش کی، یہ انتہائی قابل نفرت واقعہ ہے اور پی ٹی آئی کے اندر جس طرح کا کلچر فروغ دیا جا رہا ہے یا دیا گیا ہے اور جس طرح ان کی قیادت اپنے اخلاق و اطوار اپنے کارکنوں میں منتقل کر رہے ہیں یہ اس کا مظاہرہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس نے اس واقعے کا نوٹس لیا اور اس کو حکومت کی بوکھلاہٹ قرار دیا۔
'30 مارچ کو قافلے اسلام آباد پہنچیں گے'
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ جیسے کہ پی ڈی ایم نے اعلان کر چکی ہے کہ 26 مارچ کو لانگ مارچ کا آغاز ہوگا اور ملک کے تمام علاقوں، کونے کونے سے قافلے روانہ ہوں گے اور آج کے اجلاس میں 26 مارچ سے لانگ مارچ کے آغاز کا اعادہ کیا گیا اور پوری قوم سے اپیل کی گئی کہ اس غیر آئینی اور غیر جمہوری حکومت کے خاتمے کے لیے قوم کردار ادا کرے۔
انہوں نے کہا کہ 30 تاریخ تک یہ قافلے منزل مقصود پر پہنچنا شروع ہوجائیں گے اور لانگ مارچ کے اسلام آباد میں قیام کی حکمت عملی کے لیے 15 مارچ کو سربراہی اجلاس دوبارہ ہوگا جس میں مزید تفصیلات واضح کی جائیں گی۔
مزید پڑھیں: عمران خان کو ووٹ دینے کیلئے اراکین کو ایجنسیوں کے ہاتھوں مجبور کیا گیا، مریم نواز
ان کا کہنا تھا کہ ہفتے کو قومی اسمبلی میں جس طرح سے ایک جعلی وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، آئین کے آرٹیکل 91 کلاز 7 کے تحت یہ اجلاس صدر ہی بلا سکتا ہے لیکن یہاں اس اجلاس کو بلانے کے لیے جعلی وزیراعظم نے سمری بھیجی ہے، جبکہ آئین میں وزیر اعظم کے حوالے سے سمری کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر مملکت براہ راست اطمینان حاصل کرلے کہ اب یہ اکثریت کا اعتماد کھو چکا ہے تو پھر اسے کہا جاتا ہے کہ آپ اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ دوبارہ لیں لہٰذا آئین کے تحت یہ اجلاس نہیں بلایا گیا، یہ اجلاس بھی غیر آئینی ہے اور اس کے اندر اعتماد کا ووٹ بھی غیر آئینی ہے، اس اعتماد کے ووٹ کی کوئی دستوری، آئینی اور اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔
وزیراعظم کے عدم اعتماد کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کے اندر مزید جو کھیل کھیلے گئے ہیں وہ بھی منظر عام پر آرہے ہیں۔
'سینیٹ انتخابات میں انٹیلی جنس اداروں کی مداخلت کی مذمت کی گئی'
ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں سینیٹ کے حالیہ انتخابات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے اور اس امر کے شواہد موجود ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کوڈ آف کنڈکٹ کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے انٹیلی جنس کے اداروں نے ووٹرز پر دھمکیوں اور ترغیبات کے ذریعے اثر انداز ہونے کی غیر قانونی کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں انٹیلی جنس اداروں کی مداخلت کی مذمت کی اور خبردار کیا کہ اگر چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں یہی رویہ رہا تو پی ڈی ایم تمام حقائق منظر عام پر لانے پر مجبور ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک اعتماد: ووٹنگ کے روز اراکین اسمبلی کے لاپتا ہونے پر شور مچا ہوا تھا، شیخ رشید
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ایک طرف پی ٹی آئی تمام ناجائز حربے استعمال کر رہی ہے اور دوسری طرف احمقانہ اقدامات بھی کر رہی ہے کہ آج انہوں نے سینیٹ میں منتخب ہونے والے یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ روایات سے ہٹ کر جلد سماعت کا بھی اعلان کردیا ہے تاکہ یوسف رضا گیلانی کے نوٹی فکیشن کو رکوایا جاسکے، اگر انتخاب غلط تھا تو آپ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے سمری بھیجنے کا تکلف کرنے کی کیا ضرورت تھی، اس طرح کے بے سر و پا اقدامات کسی صورت قابل قبول نہیں کیے جاسکتے، لہٰذا ایسے اوچھے ہتھکنڈے جمہوریت کا راستہ روک نہیں سکیں گے اور عوام متحرک رہیں گے اور ووٹ کا حق حاصل کر کے رہیں گے۔
صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کے لیے پہلے سے ذہن موجود تھا لیکن دوسرے عہدے کے لیے کوئی مشاورت نہیں ہوئی تھی۔
'بے نتیجہ لانگ مارچ نہیں کرنا چاہتے'
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم بے نتیجہ لانگ مارچ نہیں کرنا چاہتے اور نہ عوام کو اس طرح کی مشقت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، تحریک کو تحریک کے انداز میں لے جانا چاہتے ہیں اور اس کو نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہیں۔
مریم نواز نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کے لیے حکومت اور اتحادی اقلیت میں ہیں جبکہ اپوزیشن کے پاس اکثریت ہے تو پھر انہوں نے اپنا امیدوار کس بنیاد پر کھڑا کیا کیونکہ وہ تو جیت ہی نہیں سکتے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی امیدوار کے جیتنے کی صرف یہ وجوہات ہوسکتی ہیں کہ پیسے سے خرید و فرخت کریں، دوسرا ایجنسیوں کو استعمال کرکے دباؤ ڈال کر اپوزیشن اراکین کو سینیٹ میں توڑ کر اپنی جماعت کی پالیسی یا ڈسپلن سے ہٹ کر ووٹ دینے کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔
مزید پڑھیں: عمران خان کو ریس میں اکیلے ہونے کے باوجود دھاندلی کرنی پڑی، بلاول بھٹو
نائب صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ایک طریقہ ہے کہ اپوزیشن اراکین کو فون کالز آئیں جو کہ آنا شروع ہوگئی ہیں، اسی بنیاد پر آپ سینیٹ کا انتخاب جیت سکتے ہیں کیونکہ آپ کے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کی جیت کے بعد ہم نے یہ بھاشن بہت سنے کہ سینیٹ میں پیسہ چلتا ہے، اس لیے سیکرٹ بیلٹ نہیں ہونا چاہیے تو پھر اب انتظار ہے کہ آپ شو آف ہینڈز کے لیے کب بات کریں گے، آرڈیننس لے کر آئیں گے، الیکشن کمیشن سے کب رائے مانگیں گے اور سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔
پنجاب میں عدم اعتماد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 2018 کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کے باجود مسلم لیگ (ن) جیتی تھی اور اب بھی ہماری اکثریت ہے، اس وقت ہم کسی ایسے شخص کو تبدیل کردیں جو اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتا تو عقل مندی کا فیصلہ نہیں ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ ہم نے ایک انسان کو گرا کر ان کا دوسرا انسان لانے کے لیے جدو جہد نہیں کی، اس حوالے سے ہم بیٹھ کر فیصلہ کریں گے، پنجاب میں بڑی تعداد میں اراکین صوبائی اسمبلی ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں۔