مقبوضہ کشمیر میں روہنگیا پناہ گزینوں کی ’گرفتاری‘ کا عمل شروع
سرینگر: مقبوضہ جموں اور کشمیر میں حکام نے 168 روہنگیا پناہ گزینوں کو حراست میں لے کر حراستی مرکز میں منتقل کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے بتایا کہ متنازع خطے میں مقیم ہزاروں مہاجرین کی ملک بدری کا عمل شروع کردیا گیا۔
انسپکٹر جنرل مکیش سنگھ نے بتایا کہ متنازع خطے کے محکمہ داخلہ کی ہدایت کے بعد جموں کے جنوبی شہر میں رہنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کی شناخت کا عمل شروع ہوا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں میں تقریباً 5 ہزار روہنگیا مسلمانوں نے مقبوضہ کشمیر میں پناہ لی ہے۔
مکیش سنگھ نے کہا کہ یہ سب غیر قانونی طور پر یہاں رہ رہے ہیں اور ہم نے ان کی شناخت کا عمل شروع کردیا ہے اور انہیں آخرکار اپنے ملک بھیج دیا جائے گا۔
ہفتے کے روز سے ہی حکام نے سیکڑوں روہنگیا پناہ گزینوں کو جموں کے ایک اسٹیڈیم میں طلب کیا جہاں ان کی ذاتی تفصیلات اور بائیو میٹرکس لے کر کورونا وائرس کا ٹیسٹ کیا گیا۔
بھارتی افسر نے بتایا کہ شہر کے نواح میں ایک جیل کو حراستی مرکز میں تبدیل کردیا گیا ہے جہاں کم از کم 168 روہنگیا مسلمانوں کو منتقل کیا گیا ہے۔
تاہم مہاجرین کو آگاہ نہیں کیا گیا کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے جبکہ مسلم اکثریتی مقبوضہ خطے میں جموں ایک ہندو اکثریتی علاقہ ہے۔
ایک روہنگیا خاتون نے بتایا کہ ہفتہ کے روز بھارتی حکام اس کے بیٹے کو لے گئے اور انہیں نہیں معلوم کہ اسے کہاں رکھا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اتوار کی صبح اس کی بہو نے بچے کو جنم دیا۔
ایک اندازے کے مطابق 40 ہزار روہنگیا افراد بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے کچھ حصوں میں پناہ لے چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے پاس 15 ہزار سے کم رجسٹرڈ ہیں۔
بہت سے لوگوں نے جنوبی شہر حیدرآباد اور نئی دہلی سمیت مسلمان آبادی والے بڑے علاقوں میں رہائش اختیار کی ہے۔
کچھ بنگلہ دیش اور میانمار سے متصل شمال مشرقی بھارت میں پناہ لے چکے ہیں۔
بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ روہنگیا میں ایسے انتہا پسند بھی موجود ہیں جو ان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔